یارِغار و مزار، خلیفہء اول سیّدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ


سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ


سیدنا ابوبکرصدیق ؓبصیرت و تدبر، عزم و استقلال، وفاداری و فدا کاری، ایثار و انفاق کا مرقع خیر، مجسمہء اسلام کے مردِ مؤمن کی سچی تصویر تھے، وہ ثانی اثنین فی الغار، پروانہ شمع رسالت، ہر دور میں اہلِ حق اور متلاشیان راہ حق و ہدایت کیلئے اصحاب رسولﷺ میں سے نمونۀ کامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپؓ کا زمانۀ جاہلیت کا نام ”عبدالکعبہ“ تھا آقائے نامدارﷺ نے آپؓ کا نام تبدیل کرکے ”عبداللہ“ رکھا۔ آپؓ کی کنیت ابوبکر،لقب صدیق و عتیق تھا۔ 

آپؓ کے والدِمحترم کا نام عثمان اور کنیت ابوقحافہؓ، والدہ محترمہ کا نام سلمیٰ ؓ،کنیت ام الخیر تھی۔ سیّدنا ابوبکر ؓ کا نسب ماں، باپ دونوں کے طرف سے چھٹی پشت میں آنحضرتﷺ کے نسب مبارک سے ملتا ہے۔ 

آپؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپؓ کے خاندان کے چار نسلیں حضور اقدس ﷺ کے دست مبارک پر مشرف باسلام ہوئیں اور سب صحابی تھے۔

آپؓ سن 574ش میں واقعہ فیل سے تین سال بعد پیدا ہوئے، آپؓ عرب کے مشہور قبیلہ بنی تیم کے چشم و چراغ تھے جو عرب میں اعلیٰ وجاہت کا حامل تھا۔ آپؓ 18 سال کی عمر میں حضورﷺ کے دوست بنے، یہی باہمی تعلق و قرب کا آغاز تھا جس کے باعث تا دم آخر ایسی قرابت داری قائم ہوئی کہ دنیا بھر میں اسکی نظیر نہیں ملتی۔ اس طرح گویا آپ ؓ نے 18 سال کی عمر سے لےکر 61 سال کی عمر تک 43 سال کا طویل عرصہ آنحضرتﷺ کے جمالِ نبوّت کا مشاہدہ کیا۔

آپؓ دورِجہالت میں بھی دیانت دار، راست بازی کے خاص شہرت کے حامل تھے، اور آپؓ ایک متمول تاجر کی حیثیت رکھتے تھے۔ ایام جاہلیت میں خون بہا کا مال آپؓ کے پاس جمع ہوتا تھا، ایام جاہلیت میں بھی شراب نوشی وغیرہ سے آپؓ کو ایسی نفرت تھی جیسے اسلام لانے کی بعد تھی۔ آپؓ  بغیر شک و شبہ، بغیر سوچ فکر کے ایمان لائے۔ آپؓ نے اسلام لانے کی بعد دین حنیف کی نشر و اشاعت کیلئے جدوجہد شروع کردی، اور صرف آپؓ کی دعوت و ہدایت پر حضرت عثمان، حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبدالرحمان بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص وغیرھم مشرف باسلام ہوئے۔ یہ وہ اکابر صحابہؓ ہیں جو گردونِ اسلام کے اخترہائے تاباں ہیں، لیکن ان ستاروں کا مرکزِشمسی حضرت ابوبکرصدیقؓ ہی کی ذات تھی۔ ظہورِ اسلام کے بعد مکہ مکرمہ میں ابتداءً جن لوگوں نے داعی توحید کو لبیک کہا ان میں زیادہ تر تعداد غلاموں اور لونڈیوں کی تھی جن کو اسلام لانے کی بعد اپنے مشرک آقاؤں کے ہاتھوں سے بہت صعوبتیں برداشت کرنا پڑی، حضرت ابوبکرصدیقؓ نے ان مظلوم بندگانِ توحید کو ان کے جفاکار آقاؤں سے آزاد کردیا۔ چنانچہ حضرت بلال، عامر بن فھیرہ، اور نہدیہ، نذیرہ، جاریہ وغیرھم نے اسی صدیقی ؓ جود و کرم کے ذریعہ نجات پائی۔ 

اسلام و دعوتِ توحید کیوجہ سے سرکارِدوعالمﷺ اور سیّدنا ابوبکرصدیقؓ پر کفار و مشرکین کے دست سے ظلم و ستم روز بروز بڑھتا گیا۔ آنحضرتﷺ نے اپنے جانثاروں کو حَبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا۔ آپؓ بھی ہجرت پر نکلے لیکن ابن الدغنہ نے آپؓ کو مکہ واپس کیا۔ لیکن جب کفار کا دستِ ستم روز بروز دراز ہوتا گیا تو آپؓ نے دوبارہ ہجرت کا قصد فرمایا، چونکہ اسی وقت سرزمین مدینہ اسلام کے نور سے منور ہوچکی تھی اور مظلوم مسلمانوں کو اپنے دامن میں جگہ دے رہی تھی اسلئے آپؓ بھی وہاں ہجرت کیلئے عازم ہوئے، لیکن دربارِنبوّت سے حکم ہوا کہ ابھی جلدی نہ کرو امید ہے کہ اللہ تعالی کے طرف سے مجھے بھی ہجرت کا حکم ہوجائے۔  آپؓ نے عرض کی یارسول اللہﷺ مجھے ہمراہی کا شرف نصیب ہو۔ ارشاد ہوا ”ہاں تم ساتھ چلوگے“۔

.... چنانچہ آپؓ نے اس بشارت کی بعد ارادۀ ہجرت ملتوی کردیا اور چارماہ تک منتظر رہے۔ حضوراکرمﷺ عموماً صبح و شام ابوبکرصدیق ؓ کے گھر تشریف لاتے تھے، ایک روز خلافِ معمول ناوقت تشریف لائے اور فرمایا ”کوئی ہو تو ہٹادو، کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں“۔ ابوبکرصدیقؓ نے عرض کی ”کہ میرے گھر والے ہیں اور کوئی نہیں“ چنانچہ آقائے نامدارﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے ہجرت کا حکم ہوگیا ہے۔ آپؓ نے پھر ہمراہی کی تمنا ظاہر کی۔ ارشاد ہوا ”تیار ہوجاؤ“۔ وہ باوفا رفیق  ؓ تو چارماہ سے زبان نبوّت سے اسی بشارت کیلئے منتظر بیٹھے تھے۔ ام المؤمنین سیّدہ امی عائشہؓ و حضرت اسماءؓ نے رختِ سفر تیار کیا، ابوبکرصدیقؓ نے پہلے سے دو اونٹ اسی سفر کیلئے تیار کرلیے تھے۔ حضرت اسماءؓ کو جلدی میں توشہ دان باندھنے کیلئے کوئی چیز نہیں ملی تو انھوں نے اپنا کمربند پھاڑ کر باندھا اور دربارِنبوّت سے ”ذاتُ النِّطاقین“ کا خطاب پایا۔ اسی طرح ایک نبی اور ایک صدیق کا مختصرقافلہ عازم مدینہ ہوا۔ 

اس قافلہ کی پہلی منزل غارِثور تھی وہاں پہنچ کر آپ ؓ نے حضور اکرمﷺ کے ساتھ ایسی خلوص و وفاداری قائم کی اور ایسے یارِ غار رہے کہ ان کی یاری کے مسلمہ وفا و خلوص کی بناء پر ”یار غار“ کی مستقل اصطلاح وضع ہوگئی۔ 

اسی طرح یہ مختصر قافلہ سنگلاخ وادیوں سے گزرتا ہوا، دشمنوں کی گھاٹیوں سے بچتا ہوا 12 ربیع الاول سن نبوت کے چودہویں سال مدینہ طیبہ پہنچا۔ مدینہ منورہ اسلام کی سرزمین تھی اور آہستہ آہستہ مسلمان یہاں جمع ہوتے رہے، اب آزادی و اجتماع کے ساتھ معبودِحقیقی کی پرستش کا موقع حاصل ہوا، اسلئے مسجد کی ضرورت تھی وہ زمین بھی سیّدنا ابوبکرصدیقؓ نے خرید لی۔ اسی طرح مدینہ پہنچنے کے بعد بھی سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ ہی کے ابرِکرم نے اسلام کیلئے جود و سخا کی بارش کی، اور زمین مسجد کی قیمت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ تعمیرِمسجد میں بھی نوجوانوں کے دوش بدوش سرگرم کار رہے۔

آپؓ دفاعِ اسلام و نشر دین کیلئے فتح مکہ تک حضوراکرمﷺ کے معیت میں تمام تر خونریز جنگوں میں ایک مشیر و وزیر باتدبیر کی طرح ہمیشہ شرف ہمرکابی سے مشرف رہے۔ 

آپ ؓ حضور اکرمﷺ کے مرض الوفات میں قائم مقام امام بھی بنے اور آپ نے ان ایام میں کل سترہ نمازیں پڑھائی تھیں،  حضور اکرمﷺ کے رحلت بعد جب آپؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو آپؓ نے سب سے پہلے جو خطبہ دیا وہ قیامت تک آنے والے حکمرانوں کیلئے معیار ہے، آپؓ جمعہ کی دن منبر پر کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا:

”لوگوں میں تمہارا امیر بنایا گیا ہوں حالانکہ میں تم میں سب سے بہتر انسان نہیں ہوں، اگر میں ٹھیک راہ پر چلوں تو میری اطاعت کرنا اگر کج روئی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کردینا۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت، تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک اس وقت تک قوی ہے جب تک اس کا حق نہ دلوادوں، اور تمہارا قوی شخص بھی میرے نزدیک اس وقت تک ضعیف ہے جب تک دوسروں کا حق اس سے واپس نہ لے لوں۔ یاد رکھو! جو قوم جھاد فی سبیل اللہ کو ترک کردیتی ہے اسے خدا رسوا کردیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیلتی ہے اس کو خدا مصائب میں مبتلا کردیتا ہے۔ سنو! اگر میں خدا اور اسکے رسولﷺ کی اطاعت کروں تو تم بھی میری اطاعت کرنا اور اگر میں خدا اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کروں تو تم پر بھی میری اطاعت لازم نہیں“۔ 

مسندِخلافت سنبھالتے ہی آپؓ نے لشکرِاسامہؓ کو روانہ فرمایا جسکو حضور اکرم ﷺ نے اپنے حیات مبارکہ میں شام پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا تھا، اس کے ساتھ جھوٹے مدعیانِ نبوت، مرتدین اسلام، منکرین زکوة  کا قلع قمع کیا، جنگ یمامہ میں چونکہ قراء حضرات کی ایک بڑی جماعت شہید ہوئی تھی اسلئے آپؓ نے حضرت عمرؓ کے مشورہ سے قرآن کو جمع کرنے کیلئے صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت مقرر کی۔ ملکی نظم و نسق، حکام کی نگرانی، تعزیر و حدود، مالی انتظامات، فوجی نظام، فوجی چھاؤنیوں کا معائنہ، بدعات کا سد باب، خدمت حدیث، محکمہ افتاء، اشاعت اسلام، رسول اللہﷺ کی طرف سے ایفائے عہد، رسول اللہﷺ کے اہل بیت اور متعلقین کا خیال، ذمی رعایا کے حقوق وغیرہ آپ ؓ کے مدت خلافت کے درخشنده ابواب ہیں۔

قرآن و حدیث میں آپؓ کی بہت سے فضائل وارد ہیں، قرآن میں اللہﷻ نے آپؓ کو ”اتقی“ یعنی سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار کا لقب عطاء فرمایا ہے۔

سورہ توبہ میں آپؓ کو نبیﷺ کا صحابی و ساتھی ذکر کیا گیا ہے۔ اسلئے مفسرین نے لکھا ہے کہ اگر کوئی ابوبکرصدیقؓ کی صحابیت کا انکار کرے تو وہ نص قرآن کا انکار کرتا ہے اسلئے وہ بالاجماع کافر ہے۔

احادیث کی بہت سی روایات میں آپؓ کے فضائل وارد ہیں:

حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہیں، اور دو وزیر زمین والوں سے ہیں، آسمان والوں سے میرے دو وزیر جبرئیلؑ اور میکائیلؑ ہیں، اور زمین والوں سے میرے وزیر ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں“

ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے ابوبکرؓ سے فرمایا ” تو غار میں بھی میرا ساتھی ہے اور جنت میں بھی“

۔۔۔۔۔ آپؓ کے چار بیویاں، تین بیٹے، تین بیٹیاں ہیں۔

①پہلی بیوی قتیلہؓ بنت سعد ہے ان کے بطن سے آپؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ اور ایک صاحبزادی حضرت اسماءؓ پیدا ہوئیں۔

②دوسری بیوی زینب ام رومانؓ تھی ان کے بطن سے حضرت عبدالرحمانؓ اور ام المؤمنین، عفیفۂ کائنات حضرت امی عائشہ صدیقہؓ پیدا ہوئیں۔ 

③تیسری بیوی حبیبہؓ بنت خارجہ بن زید ہے ان کے بطن سے ابوبکرصدیقؓ کی تیسری صاحبزادی حضرت ام کلثومؓ پیدا ہوئی۔

④چوتھی بیوی کا نام حضرت اسماءؓ بنت عمیس ہے یہ حضرت جعفرطیارؓ بن ابی طالب کی نکاح میں تھی لیکن جنگ موتہ میں حضرت جعفرؓ شہید ہوئے بعد میں حضرت علیؓ ابن ابی طالب نے اپنی بیوہ بھاوج کا نکاح سیّدنا ابوبکرصدیقؓ سے کردیا، ان کے بطن سے ابوبکرصدیقؓ کے بیٹے حضرت محمدؓ بن ابی بکرؓ پیدا ہوئے۔ 

آپؓ 22 جمادی الثانی سن 13ھ بروز پیر راہ گزین عالم جاوداں ہوئے اور اپنے معبود حقیقی سے جا ملے۔ انتقال سے پیشتر آپؓ نے فرمایا: ” کہ مجھے رسول اللہﷺ کے پہلو میں دفن کرنا، اور اسی چادر میں جو اس وقت پہنے ہوئے ہوں مجھے کفن دینا، کیونکہ زندہ کو مردہ کی نسبت نئے کپڑے کی زیادہ ضرورت ہے۔ حضرت اسماءؓ بنت عمیس (زوجہ ابوبکرصدیقؓ) مجھے غسل دیں اور حضرت عبدالرحمانؓ (پسر ابوبکرصدیقؓ) ان کی مدد کریں۔

اور یوں ہی رفیق غار و سفر اپنے محبوب کے پہلو میں دفن ہوکر ہمیشہ کیلئے ”رفیق قبر“ بھی بن گئے۔ 

                    ؎ پہنچی وہی پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی