نیا سال، مغربی اور اسلامی نقطۂ نظر اور مروجہ سن عیسوی کی حقیقت

نیا سال، مغربی اور اسلامی نقطۂ نظر

اشاعت: ہفتہ، 31 دسمبر 2022 بمطابق 7 جمادی الثانی 1444،

آج کے موضوع کے تحت ہم دو اہم باتوں پر گفتگو کریں گے۔ 

پہلی بات: اس بات کا ہر شخص کو بخوبی اندازہ ہے کہ اس وقت دنیا میں دو قسم کے سن رائج ہیں، ایک ہجری جسے باالفاظ دیگر اسلامی اور قمری بھی کہا جاتا ہے، اور ایک عیسوی جسے باالفاظ دیگر انگریزی، گریگوری اور شمسی کہا جاتا ہے۔

قمری کلینڈر ماہ و سال کے اس عدد و شمار کا نام ہے جو چاند کی زمین کے گرد گردش سے تعلق رکھتا ہے۔ زمین کے گرد چاند بارہ چکر لگاتا ہے اور ان چکروں کی مجموعی مدت 354 دن، 48 منٹ اور 34 سیکنڈ ہوتی ہے اور یہی ایک قمری سال ہے اور یہی سال مسلمانوں کی ہجری سال شمار ہوتا ہے۔ اور شمسی سال کا تعلق زمین کی سورج کے گرد گردش سے ہے، زمین کی گردش دو قسم کی ہے، ایک اپنے محور پر جس کی وجہ سے دن رات ہوتے ہیں، اور ایک قسم گردش وہ جو زمین اپنی بیضوی مدار پر سورج کے گرد لگاتی ہے، اور زمین یہ گردش 365 دن، 5 گھنٹوں، 48 منٹ اور 46 سیکنڈ میں پورا کرتی ہے اور یہی ایک شمسی سال ہے۔ 

اب قابل غور بات یہ ہے کہ ایک اصطلاح رائج ہے کہ شمسی سال کو عیسوی سال کہا جاتا ہے اور اس کو ظاہر کرنے کے لیے مطلوبہ سن کے ساتھ چھوٹا ”ع“ بھی لکھا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ یہ عیسائیوں کے حساب کتاب کا سال ہے اور یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے، اور اس کلینڈر کے آغاز سے ماقبل زمانے کو ”ما قبل مسیح“ اور بعد کے زمانے کو ”ما بعد مسیح“ کہا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ شمسی (مروجہ عیسوی) سن نہ مسلمانوں کا ہے اور نہ ہی عیسائیوں کا، اور نہ ہی یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے۔ بلکہ یہ خدا کے پیدا کردہ سورج کی حرکات سے وابستہ شمسی سال ہے جو ابتداء ہی سے چل رہا ہے۔ اس کلینڈر و سن کو گریگوری بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس وجہ سے کہ پاپائے گریگوری جو اٹلی کے علاقہ بولوگنا (bologna) میں سن 1502 شمسی میں پیدا ہوا اور کیتھولک چرچ کا اپنے موت تک پوپ رہا۔ اس نے اس کلینڈر کے ماہ اکتوبر میں ترمیم کی اور یورپ کے کثیر فتوحات اور دنیا کے کثیر علاقے یورپ کے کالونیاں بننے کی وجہ سے یہ پوری دنیا میں پھیل گیا اور آج بھی یہ ساری دنیا میں رائج ہے۔ 

محققین کا کہنا ہے کہ اس سن کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے کوئی تعلق نہیں اور اس بات کا اقرار عیسائی مصنفین و مؤرخین خود بھی کرچکے ہیں۔ کیونکہ حضرت سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ پیدائش و سال کا صحیح اور مستند علم کسی کو نہیں۔ اور اس بارے عیسائی مصنفوں نے بھی تصریح کی ہے۔ مشہور پادری ایف ایس خیراللہ بھی یہی کہتا ہے کہ مسیح کی تاریخ یا سال ولادت کا کسی کو صحیح علم نہیں، غالباً مسیح کی پیدائش سن 753 رومی میں ہوئی، اس رومی سال کے بارہ مہینے ہوتے جو 29 یا 30 دنوں کے ہوتے اور ہر سال اس میں اضافہ کیا جاتا تھا تا کہ رومی اور سرکاری سال میں برابری قائم رہے، لیکن جن رومی افسروں کے ذمہ یہ کام تھا ان کی لاپروائی سے رومی اور سرکاری سن میں دو تین مہینے کا فرق آگیا۔ 

اسی طرح جب سابق پوپ بینی ڈکٹ نے اپنی کتاب میں تصریح کی کہ مسیح کی جو تاریخ پیدائش 25 دسمبر اور متعلقہ سن بتائی جا رہی ہے یہ صحیح اور مستند نہیں ہے۔ 

تو اس بات سے بہت حیرانی اور تشویش کا اظہار کیا گیا اور ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ حقائق بھی یہی بتلاتے ہیں۔ اور اسی بنا پر راسخ العقیدہ عیسائی کرسمس ڈے نہیں مناتے، کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ جب عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہی معلوم نہیں تو خوشی کس بات پر؟ جبکہ ہمارے بعض سادہ اور لاعلم مسلمان بھائی کرسمس ڈے مناتے بھی ہیں اور عیسائیوں کو مبارکباد بھی دیتے ہیں۔ 

غرض مروجہ سن عیسوی قدیم زمانے سے مختلف اقوام اس میں ترمیم کرکے اپنے نام سے استعمال کرتے آئے ہیں، چنانچہ رومیوں نے اسی شمسی کلینڈر کو اپنے نام سے بطور ”رومی کلینڈر“ استعمال کیا، اور اس کے حساب وہ شہر روما کے بنیاد رکھے جانے سے کرتے تھے، اور یہ سلسلہ چھٹی صدی شمسی تک جاری رہا۔ بعد میں روما کے حکومت نے اس وقت کے بڑے پادری ”ڈایونیسیس اکسی گوس“ (Dionysius Exiguus) کو حکم دی کہ وہ ایک کلینڈر تیار کرے جو ”رومی کلینڈر“ کے بجائے ”عیسوی کلینڈر“ کہلائے۔ چنانچہ مذکورہ پادری نے بھی اسی شمسی کلینڈر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے طرف منسوب کرکے عیسوی کلینڈر کے نام سے موسوم کیا اور بار بار اس میں ترمیم و رد و بدل کرکے اس کو اپنے مطلب و مقصد کے مطابق استعمال کیا کرتے تھے۔

جبکہ دوسری طرف قمری و ہجری سال جو مسلمانوں کی حساب پر مبنی ہے، جو پیغمبر اسلامﷺ کی ہجرت مدینہ سے شمار ہوتا ہے، یعنی جس سال آپﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو وہ محرم سن 1 ہجری شمار کیا جاتا ہے، کیونکہ آپﷺ نے محرم ہی سے ہجرت کی تیاری شروع فرمائی تھی اور جس دن آپ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچ گئے تو وہ دن پیر 8 ربیع الاول سن 1 ہجری تھا جو موجودہ شمسی کلینڈر کے مطابق 20 ستمبر سن 622 شمسی پڑتا ہے۔ اور اسی سن 1 ہجری کے ماہ محرم کی یکم تاریخ دن جمعہ 16 جولائی سن 622 شمسی پڑتی ہے۔ اس کلینڈر کے مطابق ماقبل زمانے کو ”ماقبل ہجرت“ اور بعد کو ”مابعد ہجرت“ سے تعبیر کیا جاتا ہے جو کہ دونوں معلوم اور مستند ہیں۔ یہی قمری اور ہجری کلینڈر بلکل حقیقت اور مشاہدہ پر مبنی ہے، اس کے لیے نہ کسی ماہر فلکیات کی ضرورت ہے، اور نہ کسی اور تحقیق و علم کی، بلکہ ہر کوئی عالم، جاہل، دیہاتی اور شہری سبھی اس سے حساب معلوم کرسکتے ہیں، جبکہ شمسی کلینڈر میں بار بار ترمیم ہوتی ہے اور ہر کوئی اس کا حساب بھی معلوم نہیں کرسکتا۔ کیونکہ ابتداء میں لوگ اسی قمری حساب سے دنوں اور مہینوں کا شمار کرتے، اور مذہبی عبادات صوم، حج وغیرہ بھی اس اعتبار سے ادا کرتے، اور صرف مسلمان نہیں بلکہ غیرمسلم ہندو، یہودی اور عیسائی اپنے مذہبی رسومات ”دیوالی، ہولی اور صوم کبور وغیرہ اب بھی قمری تاریخ ہی کے حساب سے ادا کرتے ہیں۔ اور قدیم زمانے بلکہ ابتدائے دنیا سے بارہ مہینے محرم، صفر وغیرہ سے ایک سال شمار ہوتا، جس کی طرف خداوند کریم نے قرآن مجید میں اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں مہینوں کی تعداد ابتدائے کائنات سے بارہ ہیں۔ البتہ ابتداء میں سالوں کی شمار کے لیے کسی ایک بڑے واقعے یا میلے کو مقرر کیا جاتا، جب حضور اکرمﷺ نے مدینہ کو ہجرت فرمائی تو مسلمانوں کے ہاں سالوں کی شمار کے لیے یہی بنیاد مقرر ہوئی جو آج تک 1444 برس مکمل ہوچکے ہیں، جبکہ ہجرت نبویﷺ سے پہلے مسلمانوں کے ہاں نبوی سن یا قبل ہجرت کا استعمال پایا جاتا ہے، آپ نے کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ فلاں واقعہ فلاں سن نبوی کو یا ہجرت سے اتنے سال قبل واقع ہوا تھا۔ 

عیسائیوں نے شمسی کلینڈر کو بالکلیہ غلط طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کو منسوب کرکے رائج کیا کہ یہ عیسائیوں کا کلینڈر ہے۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مستند و صحیح تاریخ ولادت معلوم نہیں تو ایک نامعلوم واقعے کی طرف کلینڈر منسوب کرنا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کو یقینی طور 2022 سال ہوئے چہ معنی دارد؟ یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماقبل مجہول زمانے کو ماقبل مسیح سے تعبیر کرنا بھی معتبر نہیں۔ جب یہ شمسی سال ہے تو اس میں چھوٹا ”ع“ لکھنے بجائے کیوں نہ ”ش“ لکھا جائے؟ تا کہ بات شک و شبہ سے مبرا ہوجائے۔

شمسی و قمری دونوں حسابات اللہ تعالی کے انعامات میں سے ہیں اور ابتدائے کائنات سے چلے آرہے ہیں، البتہ اسلامی احکامات و فرائض میں قمری (ہجری) کلینڈر کا اعتبار ہوتا ہے اسلئے فقہاء امت نے ہجری کلینڈر کو رائج کرنا فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قمری تاریخ شام سے شروع ہوتی ہے کیونکہ اس کا تعلق چاند سے ہے اور وہ شام کو ہی نکلتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی صورتحال یہ ہے کہ بہت سوں کو اسلامی (قمری) مہینوں کے فقط نام بھی یاد نہیں ہیں چہ جائیکہ وہ اس کے مطابق حساب کریں؟ اس حوالے سے خواتین کا کردار قابل ستائش ہے جن کو یہ جنوری فروری والا گیت یاد نہیں ہوتا وہ سارا حساب اسی قمری حساب سے کرتی ہیں۔

اسلام نے شمسی کلینڈر کے حساب کو ناجائز بھی نہیں قرار دیا لیکن قمری حساب کو رائج کرنے کی تلقین بھی کی ہے۔ اگر کوئی اپنے کاروبار اور معاملات کا حساب شمسی کلینڈر سے کرے تب بھی شریعت اس کو نہیں روکتی، لیکن اگر اس کے ساتھ ہماری مذہبی عبادات کے علاوہ ہماری روابط، خط و کتابت ہجری کلینڈر کے حساب سے ہوجائے تو فرض کی تکمیل بھی ہوجائیگی اور قمری سن کو رواج بھی ملے گا۔

دوسری بات: یہ ہے کہ چند برسوں سے مسلمانوں میں بھی یہ قبیح قسم کا فعل اور رواج پایا گیا ہے کہ نئے شمسی سال کے آمد پر موج و مستی سے جشن مناتے ہیں، اور اس کے لیے وہ اتنے اہتمام کرتے ہیں جیسے عام طور عید کے لیے کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس فعل کی مسلمانوں کے 1400 سالہ تاریخ میں کوئی تصور نہیں۔ یہ قبیح فعل بھی یہود ہنود کے دیگر بے فائدہ کاموں کی طرح ہے جس کا جنم انیسویں صدی میں ہوا تھا اور اس کی ابتداء رائل نیوی (Royal Navy) کے ایک نوجوان سے ہوئی تھی۔ رائل نیوی برطانیہ کی مسلح افواج کا سب سے قدیم شعبہ ہے۔ اور اس قبیح فعل کی ابتداء کا پس منظر یہ ہے کہ رائل نیوی کے اہلکار بحری جہاز کا سفر زیادہ کرتے، اور یہ سفر بہت دور دراز ہوا کرتا تھا، اسلئے نیوی کے اہلکاروں کے طبیعتیں بوریت کا شکار ہوجاتے تھے۔ اور اس اکتاہٹ اور بوریت کو ختم کرنے کے لیے وہ قسم قسم کے تقاریب منعقد کرتے تھے۔ کبھی وہ ایک دوسرے کی سالگرہ مناتے، کبھی اپنے بچوں کی اور کبھی اپنے گھروں کی۔ جب سب اہلکار اپنی، بچوں اورگھروں تک کی سالگرہ مناتے لیکن پھر بھی ان کی بوریت ختم نہ ہوتی۔ تو ان سب سے بڑھ کر انھوں نے ایک اور بیہودہ رسم ایجاد کرلیا یعنی اپنے جانوروں کتوں اور بلیوں کی سالگرہ منانے لگے۔ یہ سلسلہ بھی ختم ہوا لیکن ان کی بوریت و اکتاہت کا بھوت نہ اترا اور وہ اس کو زائل کرنے کے خاطر نت نئے ڈھنگ اختیار کرنے کا سوچنے لگے۔ اتفاقی طور اس وقت دسمبر کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچنے والا تھا کہ ان اہلکاروں میں سے ایک کے ذہن میں یہ بیہودہ خیال ابھرا کہ کیوں نہ ہم نئے سال کو خوش آمدید کہے اور اس کا پرتپاک استقبال کریں؟ 

چنانچہ دسمبر کی 31 تاریخ جنوری میں تبدیل ہونے سے قبل جہاز کے سارے لوگ جمع ہوئے، جہاز کو آراستہ کیا، شراب نوشی کی محفلیں سجائی گئیں، موسیقی، ناچ گانے کا بھی انتظام کیا۔ اور رات ٹھیک بارہ بج کر ایک منٹ پر ایک دوسرے کو happy new year کہہ کر ایک دوسرے کو مبارکباد دی، خوشیاں منائیں اور اسی طرح ایک نئے قبیح و بیہودہ رسم و فتنہ کا آغاز ہوا اور آنے والی دنیا اس پر پابندی اور اہتمام کے ساتھ کاربند ہوئی۔ 

جہاں تک نئے سال کی جشن کا تعلق ہے تو اسلام میں چاہے قمری سال ہو یا شمسی؛ کسی بھی سال کے آمد پر جشن اور مبارکبادی کا کوئی تصور نہیں ہے چہ جائیکہ کہ اس کے جواز و عدم جواز پر بحث کی جائے۔ البتہ نئے سال کے شروع میں کسی کو دعائے خیر دینے -کہ اللہ آنے والا سال آپ پر خیر و برکت والا بنائے- میں کوئی حرج نہیں، اسلئے علماء نے اس کی جواز پر قول کیا ہے۔ تاہم شریعت میں اس کا بھی ثبوت نہیں لیکن ایک اچھا عمل ہے لہذا اس کے حرمت پر بھی کوئی قول نہیں ہوا ہے لیکن اس کا بھی شدت سے اہتمام کی ضرورت نہیں کیونکہ خیر و برکت کی دعا کسی بھی وقت دی جاسکتی ہے۔ البتہ نئے ماہ کا چاند دیکھنے کے بابت مخصوص دعا کہنے کی ثبوت ہے، اور پیغمبراسلامﷺ نے اس کا اہتمام بھی کیا ہے۔

تاہم مذکورہ بحث سے قطع نظر یہاں ہمارے لیے خود سوالیہ نشان ہے، کہ کیا ہماری چودہ سو سالہ تاریخ اس قبیح رسم کی اجازت دیتی ہے؟ کیا مسلمانوں کی تہذیب و تمدن میں اس کا جواز موجود ہے؟ کیا اس رات میں جشن پر پیسہ لگانا فضول خرچی نہیں؟ اور وقت مستعار کی قیمتی لمحات کا ضیاع نہیں؟ اور جشن میں پٹاخے پھوڑنا، بائیک ویلنگ کرنا، اور عوامی سڑکوں کو متاثر کرنا عوام کو تکلیف دینا نہیں؟

ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہے، تو کیوں نہ ہم اس فتنہ سے باز آجائیں اور حقیقت سمجھنے کے کوشش کریں کہ حیات مستعار سے ایک اور اینٹ گرگئی۔

بشکریہ: روزنامہ ”چاند“ سوات، 31 دسمبر 2022، 7 جمادی الثانی 1444

(اختتام)

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

3 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی