لکھی جب قلم سے صحابہ ؓ کی مدحت

صحابہؓ کی مدحت 

صحابہ کرامؓ نبی کریمﷺ کے وفادار و جانثار جماعت کا نام ہے، ان جیسے مقدّس و برگزیدہ جماعت چشمِ ارض و سماء نے قبل دیکھا ہے نہ بعد میں دیکھے گا، صحابہ کرامؓ نبی کریمﷺ کے تیرہ سالہ مکی و دس سالہ مدنی زندگی کی تربیت و تعلیم کا نچوڑ ہے۔

انبیائے ماسَبَقَ کے بھی اصحاب تھے لیکن نبی کریمﷺ کے صحابہؓ نےحضوراقدسﷺ سے جس طرح محبت کیا، جس طرح آپﷺ کا اتباع کیا، جس طرح آپﷺ پر اپنے مال، جان و اولاد لٹا گئے ان عظیم و بے مثل قربانیوں کا ثانی کائنات میں نہیں ملے گا۔ مصیبت و الم، غربت و تنگدستی کی جن مراحل سے صحابہ کرامؓ گزرے ہیں، ان کے مثال دیکھنے سے چشمِ فلک قاصر ہیں۔ بدر ہو یا اُحد، تبوک ہو یا احزاب تمام محاذوں پر راہِ وفا کے یہ جانثاران کبھی پیچھے نہیں ہٹے، مصیبت در مصیبت، ستم در ستم سہتے رہے اپنے مال، جان و اولاد سب کچھ حضوراکرمﷺ پر لٹانے کو تیار تھے پر نبیﷺ پر کانٹا لگنا بھی ان سے برداشت نہیں ہورہا تھا۔ بہادری و شجاعت، محبت، اطاعت و وفاداری کی جو داستان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چھوڑ گئے دنیا اس کی مثل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ بدر کے میدان کو دیکھو! ایک طرف تو صحابہؓ روزے سے ہیں تو دوسری طرف صحابہ کرامؓ کا لشکر کفار کے مقابلے میں بہت کم ہے مگر مصطفیٰﷺ کے ان جانثاروں نے ایک قدم پر بھی حضوراکرمﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑا، یہ حق پرست جب کسی باطل سے ٹکراتے تھے تو باطل کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہوتا تھا، اور آسمان ان حق پرستوں کی تماشہ دیکھ رہا تھا، قیصر و کسریٰ جیسے عظیم سلطنت ان جماعت رسولﷺ نے خاک میں ملادئیے۔ حضوراکرمﷺ کے طریقہ و سنت سے خلاف کوئی کام ان کو گوارا نہیں تھا، قدم بقدم انھوں نے حضوراکرمﷺ کے اقوال و افعال اور آپﷺ کے اتباع کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنایا تھا، اس وجہ سے تو صحابہؓ امت مسلمہ کیلئے معیارِحق ٹھہرے۔
یہی وجہ تھا کہ اللہ کریمﷻ نے قرآن کریم میں ان مقدّس شخصیات کیلئے مختلف اعزازی ایوارڈز اور تمغے عطاء فرمائے ہیں، جابجا ان کی مدحت و تعریف بیان کی ہے، کبھی *اولئك ھم المفلحون* تو کبھی *اولئك ھم المتقون* اور کبھی دوسرے خوبصورت القاب سے یاد کیا ہیں، کہ یہی لوگ کامیاب ہیں، یہی لوگ حقیقی مؤمن ہیں، یہی لوگ پرہیزگار ہیں۔ اور امام الانبیاءؑ، خاتم المرسلین سیّدنا حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے بھی اپنے فرامین میں صحابہؓ کی مدحت بیان کی ہے، ان کی محبت کو اپنا محبت ان کے ساتھ بغض کو اپنا بغض قرار دیا ہے، ان کے دفاع کی ترغیب دی ہے۔
اور مسلم امت کے مصنفین کے تو کتابیں صحابہ کرامؓ کے تعریف و مناقب سے بھری ہیں، غیرمسلم مؤرخین و مصنفین نے بھی صحابہ کرامؓ کے عظمت و شجاعت اور انکا نبی کریمﷺ پر اپنا مال، جان و اولاد لٹانے کا اقرار کرچکے ہیں۔
اور ان سب سے بڑھ کر آخر میں صحابہ کرامؓ کو اللہﷻ نے جو تمغۂ امتیاز عطاء فرمایا اس تمغے سے اللہ کریمﷻ نے قیامت تک صحابہ کرامؓ کے دشمنان کی منہ بند کئے۔ ان پر بےجا اعتراضات و سوالات کا سلسلہ منقطع کردیا، یہ تمغہ کوئی اور نہیں رضائے خداوندی ہے، ارشاد فرمایا، *”رضیَ اللہ عنھم  وَرَضُوْا عَنہ* یعنی کہ اللہﷻ ان صحابہ کرامؓ سے راضی ہے اور صحابہ کرامؓ اللہﷻ سے راضی ہیں۔
یہ وہ عظیم تمغہ ہے جس سے رب کائناتﷻ نے صحابہ کرامؓ کا مقام و مرتبہ تمام دنیا پر واضح فرمایا، کہ میں صحابہ کرامؓ سے راضی ہوں۔ جب میں راضی ہوں تو کسی اور کو صحابہؓ پر اعتراض کا حق حاصل نہیں۔ کیونکہ بتقاضائے بشریّت صحابہ کرامؓ سے جو خلاف اولیٰ کام سرزد ہوئے اللہﷻ ان کو معاف کرچکے ہیں، *”وَلقَد عَفَا عنکم*۔

اب جو شخص صحابہ کرامؓ پر کوئی اعتراض کرتا ہے یا گالی دیتا ہے، تو وہ قرآن کریم اور احادیث رسولﷺ کے صریح ارشادات پاؤں تلے روند کر نہ صرف صحابہ کرامؓ بلکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ اور قرآن و حدیث کے گستاخی کا مرتکب ہورہا ہے، اور ان صریح ارشادات کا انکار کرکے وہ اللہﷻ و رسولﷺ کے تکذیب کرتا ہے، جن شخصیات کو اللہ کریمﷻ نے خود اپنے رضامندی کا عظیم سرٹیفکیٹ اور ڈگری عطاء فرمایا تو بھلا وہ بھی کوئی شخصیات ہونگے نا!

ہمارے لئے صحابہ کرامؓ کا ذکر ہرمقام پر بھلائی سے کرنا ہے، صحابہ کرامؓ کا طرز عمل ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے، صحابہ کرامؓ کے آپس میں جو اختلافات تھے اللہﷻ نے اس سے ہمارے ہاتھوں کو محفوظ رکھا ہیں تو ہم کیوں اپنے زبانوں کو اس میں ملوث کریں؟
صحابہ کرامؓ کے آپس میں اختلافات اجتہادی تھے اور مجتہد اگر صحیح اجتہاد کرے تو دو اجر ہیں اور اگر خطاء ہوجائے تو پھر بھی ایک اجر ہے، تو گویا صحابہ کرامؓ ان اجتہادی اختلافات سے گنہگار نہیں بلکہ ماجور ہوئے ہیں، ایسے مقدّس شخصیات کے بارے ہم کیا کچھ لکھ سکتے ہیں۔ بس صرف اتنا کہیں گے کہ اللہﷻ ہم سب کو صحابہ کرامؓ کے سچی محبت و اطاعت نصیب فرمائے اور اللّہﷻ ہمارا حشر بھی ان مبارک ہستیوں کے ساتھ کریں۔

آمین ثم آمین

نوٹ: قلم اٹھانے کے بعد یہ میری سب سے پہلی تحریر تھی۔
حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی