جمہوریت کیا ہے؟

 


جمہوریت کیا ہے؟ کیا علماء کا سیاست میں حصہ لینا اہم ہے؟، چند سوالات پر تبصرہ


جمہوریت پر کئے گئے سوالات و اعتراضات میں مندرجہ ذیل سوالات شامل ہیں کہ:

جمہوریت وہ دین ہے جس میں ابراھیم علیہ السلام غلط اور بت پرست صحیح تھے۔ کیونکہ جمہوریت کے نزدیک ابراہیم علیہ السلام کا صرف ایک ووٹ تھا جبکہ بت پرستوں کے ووٹ زیادہ تھے۔ 

جمہوریت وہ دین ہے جو موسی علیہ السلام کو غلط اور فرعون کو صحیح مانتا ہے  کیونکہ جمہوریت کے نزدیک فرعون کے ماننے والے موسی علیہ السلام کے ماننے والوں سے زیادہ تھے۔

جمہوریت وہ دین ہے جو ابوجہل کو صحیح اور رسول اللہﷺ کو (نعوذباللہ) غلط کہتا ہے۔ کیونکہ جمہوریت کے نزدیک غزوۂ بدر میں ابوجہل کے ساتھی حضوراکرمﷺ کے ساتھیوں سے زیادہ تھے۔

جمہوریت وہ دین ہے جس میں ایک شیخ الحدیث اور ایک بازاری رنڈی کا ایک جیسا ایک ایک ووٹ ہوتا ہے یعنی رائے، مشورہ، شہادت برابر ہے۔

جمہوریت وہ دین ہے جس میں منبر کے عالم کو ہیرامنڈی کے دلّال پر کوئی فوقیت حاصل نہیں کیونکہ دونوں کی حیثیت برابر ہے۔

جمہوریت وہ دین ہے جس میں تمام اختیار پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے زانیوں، شرابیوں اور پرلے درجہ کے گھٹیا غلاموں کے پاس ہوتے ہیں۔ اور کفری قانون کی مخالفت بغاوت تصور کیجاتی ہے۔ اور شرعی قانون حدود کی مخالفت جائز اور حق سمجھا جاتا ہے۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ معلوم انسانی تاریخ میں جمہوریت تمام ادیان میں سب سے زیادہ فاسد، باطل، شرپسند اور بدترین دین ہے۔ 

لہذا جمہوریت سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائے۔


 📖(تبصرہ)📖

سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ جمہوریت اور سیاست کیا ہیں؟ اس کے معانی کیا ہیں؟ مطلب کیا ہے؟ 

یاد رکھیں جمہوریت عربی زبان کا لفظ ہے جسکا معنی ہے ”عوامی طرزِ حکومت“ یعنی اسمیں عوام خود حکومت تو نہیں کرتے بلکہ اپنی رائے سے ایسے نمائندے منتخب کرکے جمہوری ایوان میں بھیجتے ہیں جو حکومت کے کاموں میں قوم کی نمائندگی کرتے ہیں، اسی طرح سیاست بھی عربی زبان کا لفظ ہے ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے جسکا لغوی معنی ہے ”لوگوں کا سربراه و قائد بننا“ عربی زبان کا مقولہ ہے ”سَاسَ النَّاسَ سِیَاسَة تَوَلیّ رِیَاسَتھُم وَ قِیادَتھُم“  یعنی فلان نے لوگوں کی سیاست کی یعنی ان کا سربراه و قائد ہوگیا، اور سیاست کی اصطلاحی تعریف میں علماء نے بے شمار تعریفیں کی ہیں یہاں صرف ایک ملاحظہ فرمائیں۔ علامہ شمس الحق افغانیؒ فرماتے ہیں کہ سیاست ”ھُو النِّظامُ المُحافِظ لِحقوقُ الإِلٰھِیَّةِ والبَشرِیَّةِ“  یعنی سیاست وہ نظام ہے کہ الہی حقوق اور انسانی حقوق کا محافظ ہو۔ متقدمین و متأخرین علماء کے تمام تر تعریفات میں صرف الفاظ کا فرق ہے باقی مفہوم و مطلب سب کا ایک ہی ہے لیکن علامہ شمس الحق افغانیؒ کا تعریف بندہ کے نزدیک عصر حاضر کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے اور جامع و مانع ہے۔


۔۔۔ان الفاظ سے ثابت ہوا کہ سیاست بھی دین اسلام کا ایک حصہ ہے، اور جمہوریت دین نہیں بلکہ حکومت کا ایک طرز ہے جبکہ حکومت کا نظام اور ہوتا ہے جمہوریت نظام حکومت نہیں ہوتا، مختصراً یوں سمجھ لیجئے کہ ایک حکومت کا ڈھانچہ جن چیزوں پر قائم ہوتا ہے وہ دو چیزیں ہیں: ایک طرزِ حکومت، اور دوسرا نظامِ حکومت۔ 

طرزِحکومت کا مطلب ایک ریاست میں تعین حاکم اعلیٰ کا طریق کار و ترتیب اور نظامِ حکومت سے مراد وہ نظریہ اور قانون ہے جس کے تحت حکومت کا ڈھانچہ حرکت کرتا ہو۔ اور یہ بات واضح طور معلوم ہے کہ دنیا میں جس طرح نظریات و قوانین زیادہ ہیں اسی طرح طرزہائے حکمرانی بھی مختلف اور زیادہ ہیں: خلافت، بادشاہت، قبائلی طرزِحکمرانی، استبداد، جمہوریت یہ سب طرزِحکمرانی کے زمرے میں داخل ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان میں طرزِحکمرانی جمہوریت اور نظامِ حکومت اسلامی فقہ حنفی ہے اور مملکتِ سعودی میں طرزِحکمرانی بادشاہت اور نظامِ حکومت اسلامی فقہ حنبلی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ دونوں اور بقیہ اسلامی ریاستیں مغربی استعمار کے زیر اثر ہیں۔ اور انکے سیکولر و لبرل حکام مغرب کے آلہ کار بنے ہیں۔ 


 جمہوریت پر وارد کیے گئے مذکورہ بالا سوالات میں سے پہلا کہ ”جمہوریت وہ دین ہے جس میں ابراہیم علیہ السلام غلط تھا (اللہ کی پناہ) اور بت پرست صحیح تھے۔

پہلی بات کہ جمہوریت کو دین کہنا بالکل غلط و بےجا ہے، جو بھی جمہوریت کو دین مانتا ہے یہ اس کی عقل و سمجھ ناقص ہونے کا واضح دلیل ہے۔ اگر کوئی جمہوریت کو دین مانتا ہے تو خود بخود ان سوالات جیسے اور بھی جنم لیں گے، 

دوسری بات جمہوریت کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ جسکی نمائندگی زیادہ ہو وہ حق پر اور باقی غلط پر ہیں جمہوریت کا مقصد یہ ہے کہ عوام میں جسکی نمائندگی زیادہ ہو وہ برسر اقتدار ہوتا ہے، اب ظاہر ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام حق پرست اور حق پر تھے اگر چہ اقتدار اسکے قبضے میں نہ تھا، اور باقی نمرود اور اسکے کارفرما اگر چہ برسرِ اقتدار تھے پر باطل اور ناحق تھے، جمہوریت کا دار و مدار صرف اقتدار پر ہوتا ہے نہ کہ حق و باطل ہونے پر۔ جس کی زیادہ نمائندگی اسی کا اقتدار۔ چاہے حق ہو یا باطل، اس کیلئے موجودہ حکومت اور باقی اپوزیشن کے سیاسی علماء کا مثال زیادہ موزوں رہے گا، 

تیسری بات کہ ابراہیم علیہ السلام کا ایک ووٹ تھا۔ کون کہتا ہے؟ کہاں سے ثابت ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا ایک ووٹ تھا؟ سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کے دو بیویاں سیّدہ ھاجرہؓ اور سیّدہ سارہؓ، دو بیٹے سیّدنا اسماعیلؑ اور سیّدنا اسحاقؑ، ایک نواسہ سیّدنا یعقوب علیہ السلام، کیا یہ مسلمان نہیں تھے؟ یا یہ حق پر نہیں تھے؟۔ کلاَّ و حَاشا یہ سب سچے صادق و آمین مسلمان اور حق پرست و مؤحدین تھے، اور باقی بت پرست اگر چہ اقتدار والے تھے، لیکن باطل پر تھے، اسی طرح سیّدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیّدنا خاتم الأنبیاءﷺ کے مثال کو سمجھ لیجئے۔

دوسرا اعتراض کہ جمہوریت میں ایک شیخ الحدیث کو زانی و شرابی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں کیونکہ دونوں کی حیثیت برابر ہے، یہ بات تو صحیح کہا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ حیثیت برابر ہے تو کس چیز میں؟؟؟ 

دونوں کی حیثیت صرف ووٹ کی حد تک برابر ہے مطلب یہ کہ جو ووٹ ایک زانی و شرابی کو دیا جاتا ہے وہ ایک مولوی صاحب کو بھی دیا جاسکتا ہے۔ یہ نہیں کہ مولوی صاحب کیلئے کوئی دوسرا ووٹ لانا ہوگا، باقی تو مولوی صاحب کو زانی و شرابی پر فوقیت حاصل ہونے کی ایک نہیں سینکڑوں وجوہات ہیں، 

           ”کہاں آسمان کی چاند اور کہاں نالی کا کتا؟“ 


بلکہ ہم تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ بات وہ ہی کرسکتا ہے جو قرآن و حدیث میں وارد شدہ علماء کے فضائل کو سرے سے مانتا نہیں۔ یا مانتا تو ہے پَر اس پر پھیر رکھتا ہے کہ ایک وارث انبیاءؑ کو معاشرے کی سب سے کمتر و نیچے درجہ کی زانی و شرابی سے برابر کرتا ہے اور عالم دین کو اس پر کوئی فوقیت نہیں دیتا۔ 

جمہوریت میں تو علماء اسی لئے شامل ہوئے ہیں تاکہ تمام تر حکومتی اختیارات دین بیزار، زانیوں، شرابیوں کے قبضے سے نکالے اور ملک میں شرعی قوانین و احکام نافذ کریں اور انکے مخالفت کو بند کیا جائے۔ اگر چہ جمہوریت میں تعیین حاکم اعلیٰ کا جو طریقہ اس دور میں رائج ہے وہ خیرالقرون کے دور  کا نہیں ہے، تو ناجائز و حرام بھی نہیں ہے۔ خیرالقرون میں تعیین حاکم کیلئے اس کے ذمہ داری کو نبھانے کیلئے افراد تیار کیے جاتے پھر حکومت قائم کرنے کی کوشش ہوتی۔ 

جمہوریت و سیاست میں اصل جنگ نظریاتی جنگ ہوتا ہے، وہ طبقے آپکا نظریہ ایسا بناتے ہیں جسکی بنیاد پر یا تو آپ ایک نیک سیرت اور عالم دین کو ووٹ دیتے ہیں یا پھر ایک زانی و کمینہ کو۔ اور آنے والے تمام تر حکومتی جائز و ناجائز سب کام آپ کے اسی دیئے ہوئے ووٹ پر محمول ہوتے ہیں، یعنی اگر آپ ایک سیکولر دین بیزار شخص کو ووٹ دے چکے ہیں اور وہ حاکم بن کر زنا، شراب، ظلم و فساد، دین کی مخالفت کے اڈے کھول دے تو اسی میں آپکا برابر کا حصہ ہے کیونکہ آپ جس کو ووٹ دیتے ہیں تو اسکا یہ مطلب ہے کہ آپ اسے زندگی کے تمام شعبوں میں سپورٹ کرتے ہیں، 

ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ تعیین حاکم کا موجودہ طریقہ خیرالقرون کے طریقے کی موافق نہیں ہے۔ لیکن اس دور میں علماء اور مذہبی لوگوں کا سیاست و جمہوریت میں حصہ لینا کتنا اہمیت رکھتا ہے؟ اس کا اندازہ ہم اس سے لگاسکتے ہیں کہ خیرالقرون کے بعد جب اسلامی دنیا کی واحد قیادت ختم ہوگئی تو مختلف ادوار میں علمائے دین نے اسلامی خلافت کے قیام کیلئے لازوال قربانیاں دی لیکن تین ایسی باتیں ہیں جو بہت دردناک ہیں:

۔۔۔اول یہ کہ جن علماء نے اس باب میں قربانیاں پیش کیں باوجودیکہ وہ دیگر علوم سے کافی بہرور تھے لیکن علم سیاست کے ساتھ وہ فنی تعلق نہیں رکھتے تھے۔ بالفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ علم سیاست کے ساتھ ناکافی واقفیت کی وجہ سے ان کیلئے یہ ممکن نہ ہوسکا کہ اپنی قربانیوں کے ثمرات سمیٹ لیں، اور ایک خودمختار اسلامی نظام کے نفاذ میں کامیاب ہوجائیں۔

۔۔۔دوم یہ کہ مندرجہ بالا المناک اتفاق کی وجہ چالاک حکام وقت علماء سے اپنے حکومتی مقاصد کی تائید حاصل کرتے رہے، اسی طرح معاملات و مسائل کے حل میں ان سے مستفید ہوتے رہے، لیکن اس کے باوجود لوگ علماء کرام کے بارے میں احساس کمتری کے شکار رہے اور معاشرے میں ایک سیاسی قوت کی حیثیت سے ان کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ نہ علماء میں اتنی طاقت ہوتی کہ معاشرے میں اپنے آپ کو ایک مستقل سیاسی قوت ثابت کریں، بلکہ اکثر اوقات وہ حکومت وقت کے منصوبوں کے زیر اثر رہ کر محکوم و تابع بن کر رہے، جن سے صرف ضرورت کے طور پر خدمت لی گئی نہ کہ مقصودی طور پر۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ اسلامی دنیا میں سیاست کے میدان میں علماء پس منظر میں چلے گئے اور عام مسلمان صرف عبادات اور بعض معاملات میں علماء کی اہمیت کے قائل ہوئے۔ انہی مسائل میں عوام ان کی طرف رجوع کرتے تھے جبکہ سیاسی اور اجتماعی مسائل میں وہ علماء کی قیادت اور سربراہی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کیلئے تیار نہیں تھے، اس کا نظارہ آج کی دنیا میں اظھر من الشمس ہے، کہ مولویوں کے قائدانہ وسیع دائرے کو صرف مسجد، مدرسہ، منبر کی حد تک محدود کرکے لاکھڑا کیا ہے، یعنی ان کا کام صرف اور صرف بس یہی ہے، اس کے آگے ان کا معاشرے میں کوئی حق نہیں۔ میں تو صمیم دل سے کہتا ہوں کہ اگر ہم نے ان سیاسی علماء کا ساتھ نا دیا۔ انکے قدم کو مضبوط نا کیے تو خدا نہ کرے پھر وہی حالات کچھ ہم بھی دیکھیں گے جو کبھی البانیہ، ترک وغیرہ پر گزرے ہیں، کوئی پرسان حال نہ ہوگا، خون کے آنسو رونے کی سوا کچھ ہاتھ میں نہیں ہونگے، 

۔۔۔تیسری بات یہ ہے کہ جب بھی ان علماء نے معاشرے میں نظام بدلنے کی کوشش کی ہے تو رائج الوقت نظام کو ختم کرنے کی بعد حکومت چلانے کیلئے ان کے پاس کوئی دوسرا متبادل نظام موجود نہ ہوتا جو کہ رائج الوقت نظام کا نعم البدل ہو۔ نہ تو ان کے پاس ایسے افراد ہوتے جو وضعی نظام کو چلاسکے۔ اور نہ ایسے لوگ ہوتے جو اس کے بدلے میں امت کو ایسا اسلامی نظام پیش کرسکیں جو اس وضعی اور لادینی نظاموں سے چھٹکارا دلاسکے۔ اور جس کی وجہ سے اسلامی معاشرہ زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی نظام کے ساتھ خود کفیل ہوجائے۔ 


۔۔۔ان تین دردناک مناظر سے پتہ چلتا ہے کہ علماء کا سیاست میں حصہ لینا کتنا اہم ہے، لیکن ہمیں افسوس ہے ان لوگوں پر جو نہ تو ان سیاسی علماء کے دامن میں آئے تاکہ ان کے بازو بن کر دین و مذھب کیلئے کچھ کرسکیں۔ اور ان سیکولر جماعتوں کے محکوم رہ کر خود بھی کچھ نا کرسکیں۔ اگر سیاسی علماء کے مخالف ہو کر دین و مذھب کیلئے اپنا کچھ کردار دکھاتے تو ہم شانت ہوتے، لیکن معاملہ تو سوہانِ روح ہے، ان لوگوں کیلئے صرف اتنا پیش ہے کہ ” نہ ادھر کی نہ ادھر کی، یہ بلا کدھر کی“ 

۔۔اگر کوئی نظریاتی جنگ کے میدان میں دخیل ہوکر نظریاتی جنگ لڑنا چاہتے ہیں، اور اسلامی عقائد و نظریات کو عام کرکے اس کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، تو اس کیلئے ایمانِ کامل اور اعمالِ صالحہ وغیرہ کی ساتھ ساتھ سیاست کے میدان میں اتر کر پورا حصہ لینا بھی ہوگا، 


۔۔۔آئیں! نفرتوں کی فضاء کو مٹا کرکے محبت کی فضاء قائم کیجئے۔ اور دل کی کدورت ختم کرکے سیاسی علماء کا ساتھ دیجئے۔ انکے پشت پر کھڑے ہوجائیں۔ انکے بازو بن جائیں۔ انکے قدم کو مضبوط بنائیں، اللہ جل جلالہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

 رہے باقی فقط نام خدا

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی