میرے ہمدم، میرے دوست

دوستی اس دنیا کی ایک مقدس…پاکیزہ…قدرتی…اور  بنیادی رشتہ ہے، جو انسانی زندگی میں ایک کلیدی کردار کرتی ہے، اسکا کوئی نعم البدل نہیں کیونکہ یہ رشتہ بغیر کسی غرض و مطلب کے ایثار و ہمدردی پر قائم ہوتی ہے، ایک اچھے دوست کا ملنا ایک احسان خداوندی ہے…………مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ: مخلص اور ہمدرد دوست اللہ کی طرف سے عطا کیا گیا رزق ہے۔

دوستی زندگی کے ہر موڑ پر، ہر دکھ سوکھ میں ساتھ کھڑے رہنے اور تعلق نبھانے کا نام ہے۔ لیکن دوستی کا انتخاب بھی انسانی شخصیت پر موقوف ہے…دوستی کی بنیاد مفاد پر نہیں اخلاص پر ہونا چاہئے…جو لوگ خود میں مگن ہوتے ہیں…جو رشتوں سے زیادہ اشیاء کی ملکیت پر توجہ دیتے ہیں انکے زندگی میں بہت کم دوست آتے ہیں، جبکہ خوش مزاج لوگ ملنسار اور دوستانہ مزاج کے ہوتے ہیں…اور اسی وجہ سے انکا حلقہء احباب بھی بہت وسیع ہوتا ہے۔ 

دوستی میں ایک دوسرے کے اقدار کو پہچاننا لازمی ہے…ایک دوسرے کے پسند کو مد نظر رکھنا ضروری ہے…سچا دوست تو وہی ہے جو اپنے لئے جو سوچتا ہے…وہ دوستوں کیلئے بھی سوچے، دوستی کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرنا اچھا نہیں، ہر انسان کا آپ کے توقعات پر پورا اترنا ممکن نہیں کیونکہ ایک دوست آپ کو وہ کیسے دے سکتا ہے جو اسی کے پاس ہے ہی نہیں۔ دوستوں سے توقعات رکھنا انسانی و فطری عمل ہے لیکن بے لوث ہوکر سوچنا صفت خداوندی ہے۔

اپنے زندگی میں بے فائدے اور جھوٹے دوستوں کے جھنڈ اکٹھا کرنے سے بہتر ہے کہ آپ کے پاس صرف چند مخلص اور سچے دوست ہو، جو تمہارے درد و دکھ میں تمہارا درماں بنے، جو تمہارے غم کی وقت تمہارا یارغار بنے کیونکہ خوشی و راحت میں تو دشمن بھی ساتھ دیتے ہیں۔ 

دوستی چند لمحات گزارنے…وقتی لذت و مسرت حاصل کرنے کا نام نہیں، دوستی ایک ایسا رشتہ ہے جسکے بیتے پل کے یادیں ہمیشہ کیلئے یاد رہیں، جسکے حسین یادوں کو سوچ کر انسان خود سے کبھی روئے تو کبھی ہنسے۔ 

زندگی میں دوست ہر انسان کو ملتے ہیں لیکن ان دوستوں کے حلقے کو وہ آدمی جو بڑے دل والا ہو، جو فن شناس ہو، جسے دوستی جیسے اہم اور عظیم رشتوں کے قدر و پہچان ہو، اس حلقے کو مزید وسیع کرتا ہے جبکہ بے قدر و بے حس لوگوں کا حلقہء احباب بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ سب دوست اچھے ہوتے ہیں، اور اچھے لوگوں کا ہماری زندگی میں آنا ہماری قسمت ہے لیکن ان کو سنبھال کے رکھنا ہمارا ہنر ہے، ہمارے دوست اگر ہم سے ناراض ہوتے ہیں، یا دست و گریباں ہوجاتے ہیں تو ضرور وہ ہماری کسی نہ کسی رویے سے، یا کسی عادت سے مجبور ہوا ہوگا۔ سچا دوست بھائی کی طرح ہوتا ہے…فرق صرف اتنا سا ہے کہ بھائی اپنے خون کا ہوتا ہے جبکہ دوست پرائے کا۔ 


………………مجھے بھی چند نہیں بے شمار دوست ملے، جو شمار سے باہر ہیں، جنکے تعداد کا شاید مجھے خود بھی پتہ نہیں، اور ہر ایک دوست ایسا جو اپنی مثال آپ تھا، ایسے دوست جو ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے، ہر ایک نے جس قربانی و ہمدری، وفاداری و جان نثاری، جس محبت و اخوت سے راقم کو نوازا، وہ ناقابل فراموش ہے۔ میرے ان پیاروں نے میرے ساتھ بھائی جیسا برتاؤ کیا، جنہوں نے میرے ہر رائے میں میرا ساتھ دیا، جنہوں نے میرے غلطیوں کو نظر انداز کیا، جنہوں نے مجھے مایوسی کی وقت حوصلہ دیا، جنہوں نے میری ہر قسم مالی، جانی مدد کی، میرے ہر دکھ و مصیبت میں میرا صرف ایک بلاوا تھا کہ انہوں نے لبیک کہا، میں نے اپنا ہر درد انکے ساتھ بانٹ دیا، لیکن انہوں نے مجھے ہر حال میں خوشیاں دی،………وہ کہتے ہیں نا کہ ہر انسان کو ایک ایسے کندھے کی ضرورت ہوتی ہے جس پر وہ سر رکھ کر دو آنسو بہائے اور پھر زندگی کی جنگ لڑنے کے لئے تیار ہوجائے…………اسی طرح ہر حزن میں میرے احباب میرے کندھے بنے، جنہوں مجھے سہارا دیا۔ 

نہ جانے ہم نے کتنے حسین صبحیں اور یادگار شامیں اکٹھے گزارے، کتنے بار ہم ایک دوسرے سے معمولی سی باتوں پر الجھ پڑے، کتنے مرتبہ ہم ایک دوسرے کے محبت سے سیر نہ ہوئے، وہ قہقہے لگانا، ایک دوسرے کو ہنسانا، تو کبھی مزاح میں غصہ دلانا، کبھی سب اکٹھے ہو کر ایک دوست کے مقابلے میں ہوجاتے اور اسے تنگ کرتے، یادوں کا یہ ایک حسین سلسلہ ہے جو صفحۂ زیست پر نقش ہے۔ 

ایک سچے دوست کےلئے یہ بات بہت قابل فخر ہوتی ہے کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ اچھے سے اچھا برتاؤ کرے، اس کی خوشی اسی میں ہوتی ہے۔

دوستی ایسی کرنی چاہئے جو مثل بن جائے، ایسی دوستی کہ ہمارا دوست دوسروں کے سامنے ہمارے دوستی پر فخر کرے، سر اٹھا کر بولے کہ وہ ہمارا دوست ہے، ہر جگہ وہ ہمارے دوستی کے تعریفیں کرے، ایسی دوستی کہ بچھڑنے کے بعد کوئی ہماری دوستی کو یاد کرے تو ہمارے لئے روئے، دعائیں مانگے۔

ایسی دوستی کسی کام کی نہیں کہ کوئی ہم سے بچھڑنے کے بعد کہے کہ شکر ہے اس سے تو جان چھوٹ گیا، ایسا نہ ہو کہ وہ کسی محفل میں ہمارا ذکر سنے تو ہم کو بری باتوں سے یاد کرے، کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ ہمارے دوست ہم کو اپنے اوپر ایک بھاری بوجھ تصور کرے، بلکہ ایسا ہونا چاہئے کہ ہم انکا بوجھ ہلکا کرنے والے بن جائے، انکے راحت و خوشی کا ذریعہ بن جائے نہ کہ ان کےلئے درد سر بنے۔

دوستی پھولوں کی طرح ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی ہوتی ہیں، پھول توڑنے کیلئے کانٹوں کے زخم برداشت کرنے پڑتے ہیں، کیونکہ پھول کتنا حسین و خوشبودار ہے، اسکے بغیر تو ہم رہ ہی نہیں سکتے کیونکہ وہ ہمارا مقصد ہے اسی لئے کانٹوں کے زخموں کو بھول جاتے ہیں اور پھول حاصل کرنے کےلئے ان سے لڑتے ہیں، بالکل اسی طرح دوستی میں چھوٹے موٹے جھگڑے، ناراضگی وغیرہ آتے رہتے ہیں یہ زندگی کا میدان ہے اس میں یہ سب روز کا معمول ہے، لیکن دوستی کا پھول کتنا قیمتی ہے اور وہ ہمارا یوسف مقصود بھی ہے اس لئے دوستی کے خاطر ان چھوٹے ناراضگیوں کو ختم کرنا چاہئے ہم اگر ان ناراضگیوں کو دل پر لیں گے تو دوستی تو کیا جینا بھی محال ہوجائے گا، اور اگر دوستی کا میدان ہے تو خالی ہوجائے گا۔

ایک جگہ میں نے یہ جملہ دیکھا تھا کہ ”سب سے غریب شخص وہ ہے جسکے پاس کوئی دوست نہ ہو“ سچ ہے بغیر دوست کے زندگی بھی کوئی زندگی ہوگی۔ 

★دوستی کے عظمت تو مذہب اسلام میں بھی واضح کی گئی ہے، خلیفة المسلمین سیّدنا ابوبکر صدیق ؓ کا جب پیغمبراسلامﷺ کے ساتھ دوستی کی ابتداء ہوئی اور پھر آگے ہجرت کا کٹھن اور خاردار سفر پیش آیا اس سفر میں ابوبکر صدیق ؓ نے پیغمبراسلامﷺ کے ساتھ جس خلوص و وفاداری، جان نثاری و فداکاری سے دوستی نبھائی اس پر ابوبکر صدیق ؓ کےلئے  خداوند عالم نے قرآن میں “صاحبہ“ دوست کا ایسا لقب عطا کیا جس پر نہ مٹنے والے مہریں ثبت کیے گئے، تمام عمر عموماً اور اس سفر اور قیامِ غارِثور کے دوران خصوصاً ابوبکرصدیق ؓ نے حضور اکرمﷺ کے ساتھ ایسی خلوص و وفاداری قائم کی اور ایسے یارِ غار رہے کہ ان کی یاری کے مسلمہ وفا و خلوص کی بناء پر باقی دنیا میں ”یار غار“ کی مستقل اصطلاح وضع ہوگئی۔ 

★باز آمدم بر سر مطلب…… دوستی ایک عظیم رشتہ ہے اس میں ناراضگیاں آتی رہتی ہے لیکن دل کو بڑا کیجئے، ظرف وسیع کیجئے اور ان ناراضگیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دوستی کو آگے بڑھائیے، اور اس حلقہء احباب کو فرمان خداوندی کے مطابق تقویٰ، نیکی، ایثار و ہمدری پر استوار رکھنے کیلئے وسیع کیجئے۔ ان چند اشعار پر اجازت چاہونگا:

    بڑا ہی سہانا سفردوستی کا

رہے ساتھ یہ عمر بھر دوستی کا


ہے یاروں کے دم سے یہ دنیا کی رونق

    بسے ان کے دم سے، نگر دوستی کا


کبھی دوست کو اپنے کھونے نہ دینا

    ہے رشتہ بڑا معتبر دوستی کا


یہی اب تو ہر دم خدا سے دعا ہے

   دمکتا رہے یہ قمر دوستی کا



حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی