ام المؤمنین حضرت سیّدہ خدیجةالکبریٰ رضی اللہ عنہا


ام المؤمنین سیّدہ خدیجہؓ بالاجماع آپﷺ کی پہلی بیوی ہیں اور بالاجماع پہلی مسلمان ہے کوئی مرد اور کوئی عورت اسلام لانے میں آپ سے مقدم نہیں، حضرت خدیجہؓ قبیلہ قریش سے تھیں- 


(تعارف و سلسلہ نسب)

نام: خدیجہ، کنیت: ام ہند، اور لقب طاہرہ، والد خویلد بن اسد، والدہ فاطمہ بنت زائدہ ہے۔ 

خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی، قُصی پر پہنچ کر سلسلۂ نسب آنحضرتﷺ سے سلسلہ نسب مل جاتا ہے۔


(حالات زندگی اور شادیاں)

حضرت خدیجہؓ چونکہ جاہلیت کے رسم و رواج سے پاک تھیں، اس لئے بعثتِ نبویﷺ سے پیشتر وہ طاہرہ کے نام سے مشہور تھیں۔ 

آپکا پہلا نکاح ابوہالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوا جن سے ہند اور ہالہ دو بیٹے پیدا ہوئے۔ ہند اور ہالہ دونوں مشرف باسلام ہوئے، دونوں صحابی ہیں، ہند بن ابی حالہ نہایت فصیح و بلیغ تھے۔ حلیہ نبویﷺ کے متعلق مفصل روایت انہی سے مروی ہے۔


ابوہالہ کے انتقال کے بعد عتیق بن عائذ مخزومی کے نکاح میں آئیں جن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ہند تھا، ہند بھی اسلام لائیں اور صحابیت کے شرف سے مشرف ہوئیں، مگر ان سے کوئی روایت منقول نہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد عتیق کا بھی انتقال ہوگیا اور حضرت خدیجہ پھر بیوہ کی بیوہ رہ گئیں۔


نفیسہ بنت منیہ سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ بڑی شریف اور مالدار عورت تھیں- جب بیوہ ہوگئیں تو قریش کا ہر شریف آدمی ان سے نکاح کا متمنی تھا لیکن جب آنحضرتﷺ حضرت خدیجہ کا مال تجارت لے کر سفر میں گئے اور عظیم نفع کے ساتھ واپس ہوئے تو حضرت خدیجہؓ آپﷺ کی طرف راغب ہوئیں اور مجھے (نفیسہ بنت منیہ) آپ کا عندیہ معلوم کرنے کیلئے بھیجا، چنانچہ میں آپﷺ سے آکر ملی اور کہا کہ آپ کو نکاح سے کیا چیز مانع ہے، آپﷺ نے فرمایا: میرے ہاتھ میں کچھ نہیں، میں نے کہا کہ اگر آپ اس فکر سے کفایت کئے جائیں اور مال، جمال اور کفاءت کی طرف آپ کو دعوت دی جائے یعنی پھر تو یہ عذر نہ ہوگا، آپﷺ نے فرمایا وہ کون ہے؟ میں نے کہا: خدیجہ۔ آپ نے قبول کیا۔ 


اصل وجہ یہ ہے کہ جوں جوں زمانہ نبوت اور بعثت کا قریب ہوتا جاتا تھا اسی قدر آپﷺ کی کرامتیں اور آپ کے ظہور کی بشارتیں ظاہر ہوتی جاتی تھیں- کبھی علماء تورات اور انجیل کی زبان سے اور کبھی کاہنوں سے اور کبھی ہواتف اور غیبی آوازوں سے، تورات اور انجیل کا جو عالِم آپﷺ کو دیکھتا تھا یہی کہتا کہ یہی نونہال اور یہی نوجوان وہ پیغمبر آخرالزماں ہونے والا ہے جس کی حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ نے پیشگوئی کی ہے۔

حضرت خدیجہؓ کو ان واقعات کا خوب علم تھا۔ ابھی اپنے غلام میسرہ سے سفر شام کے واقعات اور راہب کا قصہ سن چکی تھیں- بحیرا راہب کا قصہ اس سے پیشتر پیش آچکا تھا، ادھر ان کی چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل تورات اور انجیل کے زبردست عالم تھے، اور نبی آخرالزمان کے ظہور کے منتظر تھے، ان واقعات کی وجہ سے حضرت خدیجہؓ کے دل میں آپﷺ سے نکاح کا شوق پیدا ہوا اور اسی اثناء میں یہ واقعہ پیش آیا کہ جاہلیت کی ایک عید میں مکہ کی عورتيں جمع ہوئیں، ان میں حضرت خدیجہؓ بھی تھیں- دیکھتی کیا ہیں کہ یکایک ایک شخص نمودار ہوا اور بآواز بلند یہ ندا دی:

{ انّہ سیَکونُ فِی بلدِکُنَّ نبیٌّ یقالُ لہ احمدُ فمنِ اسْتطاع منکنَّ ان تکونَ زوجةً لہ فلتفعَل فَحصبْنہ الاَّ خدیجة فَاغضتْ علیٰ قولِہ، رواہ المدائنی عن ابن عباسؓ} 


ترجمہ: ”اے عورتوں! تمہارے شہر میں عنقریب ایک نبی ظاہر ہوگا جس کا نام احمد ہوگا۔ جو عورت تم میں سے اس کی بیوی بن سکے تو وہ ضرور کر گزرے۔ سب عورتوں نے اس ندا دینے والے کے سنگریزے مارے، مگر حضرت خدیجہ نے کوئی سنگریزہ نہیں مارا بلکہ سن کر خاموش ہوگئیں،، 


☜حضرت خدیجہؓ کا قلب پہلے ہی سے اس سعادت کے حصول میں تمناؤں اور آرزؤوں کی جولان گاہ بنا ہوا تھا مگر اس ہاتف غیبی کی آواز نے اور آتشِ شوق کو بھڑکا دیا۔ 

ابن اسحاق کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ جب سفر شام سے واپس آئے اور تمام حالات و واقعات اور نسطورا راہب کی گفتگو بیان کی تو حضرت خدیجہؓ نے سن کر فرمایا: 

”اِنْ کَان مَا قالَ الیَھُودِیُّ حقًّا مَا ذٰلكَ الاَّ ھٰذا“ اگر اس یہودی کاہن کی بات سچی ہے تو پھر اسکا مصداق آپ ہی ہیں۔


اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عید میں عورتوں کے جمع ہونے کا واقعہ میسرہ کی واپسی سے پہلے کا ہے، حضرت خدیجہؓ کا نام طاہرہ رکھا نہیں گیا، بلکہ من جانب اللّہ لوگوں سے ان کو طاہرہ کہلوایا گیا تھا تاکہ ان کی طہارت و نزاہت مشہور ہوجائے، جس طرح نبی اکرمﷺ کو امین کہلوایا گیا تاکہ آپ کی امانت اور دیانت مسلّم ہوجائے اور کسی کو اس میں کلام کی گنجائش نہ رہے، ایسے ہی موقع کیلئے کہا گیا ہے کہ ”زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو“۔

چونکہ حضرت خدیجہؓ اپنے زمانہ کی مریم تھیں اس لئے حضرت مریم کی طرح ان کو بھی ”وطَھرَّكِ وَاصطَفاكِ علٰی نساءِالعَالمِین“ سے خاص حصہ ملا اور طاہرہ کے نام سے مشہور ہوئیں، اب ظاہر ہے کہ ایسی طاہرہ اور مطہرہ خاتون کا میلان کسی طاہر اور مطہر ہی کی طرف ہوسکتا ہے، اللّہ تعالی نے سچ فرمایا اور اس سے بڑھ کر کون سچا ہوسکتا ہے، اَلطَّیبَاتُ لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیبُونَ للِطَّیّباتِ• (سورہ نور)


سب کو معلوم ہے کہ نبوّت و رسالت کوئی بادشاھت نہیں، دنیا کی عیش و عشرت سے اسے ذرہ برابر تعلق نہیں، درہم و دینار کی یہ مجال نہیں کہ پیغمبر کے گھر میں کوئی شب گزار سکے مگر یہ کہ کسی قرض خواہ کے انتظار میں ایک آدھی شب ٹھہر جائے، ہفتے اور مہینے گزر جائیں کہ دن میں چولہا نہ سلگے اور راتیں گزر جائیں کہ گھر میں چراغ روشن نہ ہو، اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ مال و دولت عیش و عشرت زر اور زیور کی محبت عورتوں کی فطرت میں داخل ہے، مگر بایں ہمہ حضرت خدیجہؓ کا تمام اشراف اور روساء مکہ کو باوجود ان کی تمنا اور آرزو کے چھوڑ کر آنحضرتﷺ کی طرف مائل ہونا آپ کی طہارت اور نزاہت کی روشن دلیل ہے اور اسی سے حضرت خدیجہؓ کے فہم و فراست کا اندازہ ہوسکتا ہے، پیغمبر کی زوجیت کی خواہش اور تمنا کرنا معمولی عقل کا کام نہیں، انتہائی دوربين اور دور اندیش عقل اس تمنا پر آمادہ کرسکتی ہے، کیونکہ عقل بتلاتی ہے کہ پیغمبر کی زوجیت میں جانے کیلئے یہ شرط ہے کہ دنیا سے ہاتھ دھونا اور فقر و فاقہ کو اپنانا پڑے گا، پیغمبر کی زوجیت کی تمنا فقر و فاقہ کی تمنا ہے اور مصائب و آلام کو دعوت دینا ہے۔

حضرت خدیجہؓ نے یہ سب جان بوجھ کر اور خوب سوچ سمجھ کر اپنی طرف سے پیام کی ابتداء کی اور روساء مکہ کی آرزؤوں کو خاک میں ملادیا، بھلا جس مبارک خاتون نے دنیا ہی کے ٹھکرانے کا عزم بالجزم کرلیا ہو تو وہ ابناء دنیا کو کہاں نظر میں لاسکتی ہے، جب مال ہی سے کوئی علاقہ نہیں رہا تو پھر اس کے فرزندوں سے کیا علاقہ۔ کسی شریف رئیس کی ثروت اس خاتون کو اپنی طرف کب مائل کرسکتی ہے کہ جو اپنی ہی دولت کو خدا کی راہ میں لٹانے کیلئے تیار بیٹھی ہو۔ 

آپﷺ نے اپنے شفیق چچا ابوطالب کے مشورہ سے اس پیام کو قبول کیا، حضرت خدیجہؓ کے والد خویلد کا پہلے ہی انتقال ہوچکا تھا، لیکن ان کے چچا عمر بن اسد نکاح کے وقت زندہ تھے وہ اس تقریب میں شریک ہوئے۔ 

تاریخ معین پر ابوطالب مع اعیانِ خاندان کے جن میں حضرت حمزہؓ بھی تھے، حضرت خدیجہؓ کے مکان پر آئے اور شادی کی رسم ادا ہوئی، ابوطالب نے خطبہ نکاح پڑھا، اور پانچ سو درہم مہر مقرر ہوا۔


نکاح کے وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال کی اور آنحضرتﷺ کی عمر 25 سال تھی۔ 


بعض روایات میں مذکور ہے کہ ایجاب و قبول کے بعد حضرت خدیجہؓ نے ایک گائے ذبح کرائی اور کھانا پکواکر مہمانوں کو کھلایا۔

نکاح کے بعد حضرت خدیجہؓ نے جس طرح آنحضرتﷺ کے رفاقت کا حق ادا کیا وہ مابعد دنیا کےلئے مشعل راہ ہے، ہر درد و الم، خوف و حزن میں حضرت خدیجہؓ حضورﷺ کے ایک باوفا رفیقہ بنیں۔


(اولاد)

حضرت خدیجہؓ کے بطن سے آپﷺ کی چار صاحبزادیاں، زینبؓ، رقیہؓ، ام کلثومؓ، فاطمہؓ، اور دو لڑکے قاسمؓ، اور عبداللّہؓ پیدا ہوئے۔ 

اولاد ذکور صغر سِنی ہی میں انتقال کرگئے البتہ صاحبزادیاں بڑی ہوئیں اور بیاہی گئیں۔ 


(دربار خداوندی اور رسالت میں مرتبہ)

☜بخاری و مسلم میں حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جبرئیل امین آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللّہ یہ خدیجہ آپ کیلئے کھانا لئے آرہی ہیں، جب آپ کے پاس آئیں تو ان کے پروردگار کی طرف سے اور پھر میری طرف سے ان کو سلام کہہ دیجئے اور ان کو جنت کے ایک محل کی بشارت دیجئے جو ایک موتی کا بنا ہوا ہوگا اور اس محل میں نہ کوئی شور و غل ہوگا اور نہ کسی قسم مشقت اور تکلیف ہوگی۔ 


☜حضرت خدیجہؓ آپﷺ کے پہلی بیوی تھی جب تک زندہ رہیں اس وقت تک آپﷺ نے دوسرا عقد نکاح نہیں کیا۔


☜حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے خدیجہؓ کو نہیں دیکھا مگر ان کو بہت رشک آتا ہے کہ آپﷺ ان کا ذکر ہمیشہ کیا کرتے اور فرماتے جب لوگوں نے میری تکذیب کی تو انہوں نے تصدیق کی۔ جب لوگ کافر تھے وہ اسلام لائیں۔ جب میرا کوئی معین نہ تھا انہوں نے میری مدد کی۔ میری ساری اولاد ان سے ہے۔ آپ کی وفات کے بعد نبی کریمﷺ کا معمول تھا کہ جب بھی گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا اس کا گوشت ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی سہیلیوں کے گھر پہنچاتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: کہ عالَم میں افضل ترین عورتيں مریم اور خدیجہ ہیں۔


(وفات)

حضرت خدیجہؓ نے 10 رمضان سن 10 نبوی یعنی ہجرت مبارکہ سے تین سال قبل 65 سال کی عمر میں نبی کریمﷺ کے ساتھ 25 سالہ رفاقت کے بعد دارِ بقا کی طرف کوچ کیا، اور حجون مقام میں دفن ہوئیں، حضورﷺ نے خود اپنی سب سے بڑی غمگسار کو قبر میں اتارا، نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہیں ہوئی تھی،جس سال خدیجہؓ کا انتقال ہوا اسی سال حضور اکرمﷺ کے غمگسار چچا ابوطالب کا بھی انتقال ہوا، ان حادثات کے بنا پر سن 10 نبوی کو ”عامُ الْحُزنْ“ یعنی غم کا سال کہا جاتا ہے۔

                        (رضی اللہ عنہا وارضاھا) 

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی