مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم

دورِ حاضر میں چہار سو ظلمت و نفرت کا اندھیرا چھا گیا ہے، مسلمان ہر جگہ خون کے آنسو رو رہے ہیں، ہر جگہ مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے، انکے گھروں، جائدادوں سمیت انکے مذہبی شعائر و مقامات تک پر صیہونی شرانگیزوں اور انکے ہم فکروں نے اگر ایک طرف قبضے رکھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف بہت سے گھروں کو کھنڈروں میں تبدیل کیے، بہت سے مراکز دینیہ کو شہید کرگئے ہیں۔ یعنی ہر طرف مسلمانوں سے دشمنی اور نفرت کے شعلے بھڑک رہے ہیں، اور مسلمان ہے کہ خواب غفلت کا متوالا بن گیا ہے۔ الٹا وہ یہ طعنہ دے رے ہیں کہ فلان مقام کے مسلمانوں کا مسئلہ ہے وہ جانے اور انکا مسئلہ جانے، لیکن سوچ لیں کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ   ؎


     اے چشم اشکبار ذرا دیکھ تو سہی

یہ گھر جو بہہ رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو


.......... مسلمانوں کی مثال تو پیغمبراسلامﷺ نے ایک بدن کی دی تھی کہ آنکھ میں تکلیف ہو تو پورا بدن بے قرار، سر میں تکلیف تو پورا جسم بے تاب۔

زبان سے آزادی کے نعرے لگانے والے ہم مسلمان سامراج کے غلامی کے ہتھکنڈوں میں کتنے جکڑے ہوئے یہ ہمیں اندازہ بھی نہیں ہے، اور نہ ہم اپنے  غفلت شعاری کی وجہ سے اندازہ لگانا چاہتے ہیں۔ 

صیہونیوں نے ہمیں ذہنی غلام بنایا ہے اور جیسا کہ ذہن بدن سے اعلی ہے بالکل اسی طرح ذہنی غلامی بدنی غلامی سے اعلی درجے کی بدتری ہے۔

ہمارے اذہان کو غیرمسلموں نے اپنے ایجنڈوں سے معمور کیا ہیں، اور ہمیں ان تعلیمات سے دور، بےگانہ اور ویران رکھا گیا جن تعلیمات میں ہماری دنیوی و اخروی سرخروئی تھی۔۔۔۔۔۔جن تعلیمات میں ہمیں کسی عربی کو عجمی اور کسی گورے کو کالے اور کسی مالدار کو غریب پر کوئی فوقیت حاصل نہیں کا درس دیا گیا تھا۔۔۔۔۔جن تعلیمات کے سبب ہم بھائی بھائی بن گئے۔۔۔۔ایک دوسرے کے عزت، مال و جان کی حفاظت اپنی ہی سمجھے تھے۔۔۔۔۔جن تعلیمات پر ہم جب عمل پیرا تھے تو آدھے سے زیادہ دنیا پر ہماری حکومت تھی، جن تعلیمات پر کبھی ہم نے عمل کیا تھا تو مشرکین اور صیہونی ہم سے اپنے زندگیوں کے بھیک مانگتے تھے، جن تعلیمات سے ہم مزین تھے تو ہمارے اخلاق، عادات اور انسانیت کو دیکھ لوگ جوق در جوق اسلام کے سایہ میں آرہے تھے۔ ہمارے ژیان شیروں کے خوف سے تو کفر کی سطوت خاک میں مل گئی تھی۔ ہمارے کارہائے نمایاں تو قرطاسِ تاریخ کی لازوال باب ہے، جزیرہ عرب کے ریگستانوں سے صحرأ افریقہ تک۔۔۔۔۔جبل طارق سے باب کابل تک۔۔۔۔۔اور جنگ بدر سے معرکۂ بالاکوٹ تک۔۔۔۔۔۔ خلفائے راشدین سے تابعین کے دور تک اسلام کی شیدائیوں کے کارنامے بکھرے پڑے ہیں۔ ہمارے توحید کے مستانہ نعروں سے تو وقت کے فرعونوں  کے نیندیں حرام تھے، وقت کے راجاؤں اورکسراؤں کے سر ہمارے قدموں میں تھے۔ ہم کبھی محمد بن قاسم کے کمان میں دھاڑتے چنگھاڑتے آئے تھے.....تو کبھی ہم نے طارق بن زیاد کے کمان میں انمٹ نقوش چھوڑے تھے.....کبھی ہم نے صلاح الدین ایوبی کے لشکر میں اقصیٰ کو صیہونی فتنے سے آزاد کیا تھا۔ کبھی ہم نے سمندروں میں اپنے جذبۂ ایمانی سے جہادی گھوڑے دوڑادیے تھے، ہم  نے دریاؤں کو بھی اپنا جذبۀ ایمانی دکھایا تھا  ؎


اے موج دجلہ تو بھی پہچانتی ہے ہم کو 

اب تک ہےتیرا دریا افسانہ خواں ہمارا  


لیکن حریفوں سے یہ سب کچھ برداشت نہ ہوا اور انہوں نے ہمارے ساتھ تلوار کے بجائے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا جس کو نظریاتی جنگ کہا جاتا ہے، اس جنگ کے میدان میں انہوں نے ہمیں برائے نام آزادی دی لیکن ہمیں ذہنی طور اپنا غلام بنایا۔ ہم کو جشن مین مبتلا رکھا اور خود مشن پر لگ گئے، ہمیں آپسی اختلاف کے جھرمٹ میں دھکیل دیا اور خود ایک یونین اور متحد قوت بن گئے، ہمیں میڈیا کے سیلاب میں ڈبو دیا اور خود اس کے ٹھنڈے پانی سے مزے اڑانے لگے، اور ہمارے ذہنوں کو ایسا بنادیا کہ ہم انکے غلامی میں ہوتے ہوئے یہ نعرے لگاتے ہیں کہ ہم انکے غلامی نہیں کریں گے، ہمارے اس غفلت شعاری کو دیکھتے ہوئے وہ کتنے مسکے لگاتے ہونگے کہ دیکھو کیسے احمق بنایا، اور وہ آسمان جو کبھی ہمارے کارناموں سے لرز اٹھا تھا ہمارے اس غفلت شعاری سے غصے سے پھٹ رہا ہوگا۔ 

ہماری پہچان تھی، رعب و دبدبہ تھا، جذبہ تھا، ایمان تھا، حقانیت تھی لیکن فیآاسفیٰ! کہ ہم نے اپنی تاریخ بھلادی ہے، زمین و آسمان ہمارے بے پرواہی پر آنسو بہا رہے ہیں، ہم نے دنیا کے ملمع سازیوں میں رب کے حسین جنت و باغات کو فراموش کیا، ہم نے دنیا کے رنگینیوں میں اپنی سکون تلاش کی لیکن چین و سکون کے جس نسخہء کیمیا کو رب نے ہمارے لئے بطور ارمغان بھیجا تھا ہم نے اس سے منہ پھیر لیا ہے، ہم نے اپنے دشمن کے آواز پر یقین کرلیا لیکن جو پیام حق و صداقت ہمارے لئے جبریل آسمانوں سے لائے ہم نے اسے کبھی پرکھنا بھی نہیں چاہا۔ ہم اپنے ہاتھوں بنائے جال میں پھنس گئے، ہم مایوسی کے آگ میں جل گئے اور امید کے کرنیں ہم سے روپوش ہوئے۔


مسلمانوں! ہم آج بھی کامیاب ہوسکتے ہیں، آج بھی ہم اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کرسکتے ہیں، دربار خداوندی میں ہم اپنا وہ مقبولیت پھر حاصل کرسکیں گے اور ہمارے کامرانی و کامیابی کا سحر طلوع ہوگا لیکن اس کےلیے ہمیں اپنے ماضی میں جانا ہوگا اور اس نسخہ کو تلاش کرنا ہوگا جس کے بدولت مسلمان ترقی کے راہ پر گامزن تھے، اور جس کے وجہ سے اللہ کے زمین پر اللہ کا راج تھا۔ اور ان شاءاللہ پھر وہ دن زیادہ دور نہیں جب مسلمانوں کا سویا ہوا شیر بیدار ہوجائے اور صفحہء ہستی پر ایک بار پھر اپنے نقوش تازہ کرے   ؎


      سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر

 جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر اُستوار ہو گا


  نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا

   سنا ہے یہ قُدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا


مسلمانوں کو آج کل جو کچھ کرنا ہے سب خود ہی کرنا ہے، اپنی انقلابی تحریک کو مسلمانوں نے خود آگے بڑھانا ہے۔ نزول عیسیٰ ؑ اور مہدیؑ کے انتظار میں اپنا وقت ضائع کرنا نہیں چاہیے، یہ سب تکوینی امور ہیں جب صادر ہوجائیں گے تب دیکھا جائے گا، پیغمبراسلامﷺ نے صرف ان کے آنے کی پیش گوئی ہے انتظار کا حکم نہیں دیا کہ ہم ہاتھوں پر ہاتھ دھرے آرام سے بیٹھ جائے۔

دنیا کے تمام غیرمسلموں کو ہم نے یہ پیام دینا ہوگا کہ   ؎


کیا ہم کو ڈراتے ہو بپھرے ہوئے طوفانوں!

ہم نے تو خود سفینوں کو آگ لگادی ہے


پریشان اور مایوس ہونا چھوڑدیں، ایمان محکم اور مضبوط یقین کو اپنائیں، رب کائنات کا بھی یہ حکم ہے۔

اور اپنے مایوسی کو مٹاتے ہوئے ببانگ دہل نعرہ لگانا ہوگا کہ   ؎


کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا

  مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم


اللہ مسلمانوں کے سوئے ہوئے ضمیر و غیرت کو دوبارہ جگائے اور ان کو کامرانی کے راہ پر گامزن کرے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین


«★~رہے فقط نام اللہ کا~★»

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی