غزل: لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں

Laghta nahe hai dil mera

            یہ غزل سلطنتِ مغلیہ کے آخری تاجدار ابوالمظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفرؔ کی آخری غزل ہے، جو انھوں نے رنگون (برما) میں فرنگی قید کے دوران لکھی تھی۔ بہادرشاہ ظفرؔ کو بادشاہت اس وقت ملی جب مغلیہ خاندان کا وقار کھو چکا تھا، ظفرؔ کی تخت نشینی کے وقت مغلیہ سلطنت صرف دہلی کے لال قلعے تک محدود ہوکر رہ گئی تھی۔

            بہادر شاہ ظفرؔ کی تربیت لال قلعہ کے صاف ستھرے ماحول میں ہوئی اور بہترین اساتذہ سے اکتساب فیض کا موقع میسر آیا۔ ظفرؔ، شاہ نصیر اور ذوؔق جیسے بڑے شعرا کے شاگرد رہے تھے مگر خود اس قدر ذہین و فطین تھے کہ اپنے اساتذہ میں سے کسی ایک کی تقلید نہیں کی بلکہ شاعری کے انداز و بیاں میں اپنی ایک منفرد راہ نکالی۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بہادر شاہ ظفرؔ کے اشعار سے ان کے جگر کا خون ٹپکتا ہے۔
            سیاسی انتشار، اقتصادی زبوں حالی کے سبب ظفرؔ کے اشعار میں دکھ، درد، مایوسی، سوز و گداز، احساس محرومی سب نمایاں ہیں۔
             بہادر شاہ ظفرؔ مرحوم نے اپنے کلام میں اخلاقی مضامین، تصوف، یاد خدا وغیرہ حسین خیالات بھی خوب بیان کیے ہیں۔ بہادر شاہ ظفرؔ نے ادب کی تمام تر اصناف میں شعر کہے ان میں حمد، نعت رسول مقبولﷺ، رباعی، مثلث، مخمس، مسدس، قطعات، مرثیہ، اور تضمین وغیرہ شامل ہیں۔ ظفرؔ کے غزل میں دو طرح کے اشعار ہیں، ایک شدت یاس اور دردناک قسم کے اور دوسرے رنگین، لیکن یہ رنگین قسم اشعار بھی حقیقت میں غم کی احساس کو چھپانے کی ناکام کوشش ہے۔
            بہادرشاہ ظفرؔ کے کلام میں ایک قسم کی سی مقناطیسی کشش موجود ہے جو اپنے قاری و سامع کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہے، اور جب پورا غزل پڑھا یا سنا نہ جائے تب تک آدمی ادھورا سا محسوس کرتا ہے۔
             یہ غزل بھی جب میں نے پہلے بار پڑھا تو مجھے بہت اچھا لگا، پہلی بار میں نے اس غزل کو ایک دیوار پر لگے فلیکس میں دیکھا تھا شاید وہ مکمل نہ تھا، پھر جب میں نے اسے کتاب میں پڑھا تو رہا نہ گیا کہ ظفرؔ کے مزید شعر و شاعری کا مطالعہ کیا جائے۔

            ظفرؔ نے اس غزل میں ہجر و وصال، دنیا کے بےثباتی، عمر فانی، محرومی، حسرت و یاس کا ایک نقشہ انتہائی حسن انداز میں کھینچا ہے۔ اس غزل میں ایک عجیب سی کشش ہے، میں نے جب سے سنا ہے تب سے کبھی کبھی دل ہی دل میں اس کے اشعار کو پڑھتا رہتا ہوں گو کہ مجھے زبانی طور یہ غزل یاد ہے۔
             جس غزل کےلیے بات اتنی لمبی ہوئی تو لیجیے آپ خود بھی اس غزل کو پڑھ لیجیے اور لطف لیجیے   ؎

لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
  کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں

عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

کانٹوں کو مت نکال چمن سے او باغباں
یہ بھی گلوں کے ساتھ پلے ہیں بہار میں

بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں

ان حسرتوں سے کہ دو کہیں اور جا بسیں
    اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں

کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

 

                                   ★~؞ رہے فقط نام اللہ کا؞~★

✍🏻حیدرعلی صدّیقی


حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی