امیرالمؤمنین سیّدنا حضرت عثمان بن عفان ذوالنورین ؓ

        

سیّدنا عثمان ذوالنورین ؓ

          آپ کا نام عثمان، کنیت ابوعبداللہ اور ابوعَمَرْو، القاب ذوالنورین، پیکرِ حیاء، جامع قرآن، شہید مظلوم، مظلوم مدینہ، وغیرہ تھے۔

والد کا نام عفان، والدہ ارویٰ بنت کریز تھی۔ 

           حضرت عثمان ذوالنورینؓ کی نانی ام الحکیم بیضاء حضور اکرمﷺ کے والد محترم عبداللہ کے سگی بہن تھیں اور رسول اللہﷺ کے پھوپھی تھیں، اور یہ وہ بہن تھی کہ نبی کریمﷺ کے والد محترم اور ام حکیم بیضاء دونوں تَوَأُم (جوڑا) پیدا ہوئے تھے۔

           سیّدنا عثمان ذوالنورینؓ کا نسب ماں باپ دونوں کے طرف سے پانچويں پشت پر آنحضرتﷺ کے نسب مبارک سے مل جاتا ہے۔ سیّدنا حضرت عثمان ذوالنورینؓ ماں، باپ دونوں کی طرف سے بہت زیادہ قریب کی رشتہ داری اور تعلق نبی کریمﷺ سے رکھتے ہیں۔ 

تاریخ پیدائش اور قبول اسلام:

            حضرت عثمانؓ واقعہ فیل کے چھٹے سال یعنی ہجرت نبویﷺ سے ٤٧ برس قبل پیدا ہوئے، بچپن اور سن رشد کے حالات پردۀ خفاء میں ہیں، لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے عام اہل عرب کے خلاف اسی زمانہ میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا، عہد شباب کا آغاز ہوا تو تجارتی کاروبار میں مشغول ہوئے، اور اپنی صداقت، دیانت، امانت، اور راست گفتاری کے باعث غیر معمولی فروغ و شہرت حاصل کیا۔

           حضرت عثمانؓ کا چونتیسواں سال چل رہا تھا کہ مکہ کے پہاڑیوں پر آفتاب رسالتﷺ طلوع ہوچکا تھا اور صحن حرم میں داعیٔ توحید نے توحید کی صدائے غلغلہ انداز بلند کیا تھا۔ گو کہ ملکی رسم و رواج اور عرب کی مذہبی تخیل کے لحاظ سے حضرت عثمانؓ کےلیے یہ آواز نامانوس تھی، تا ہم وہ اپنی فطری عفت، پارسائی، دیانتداری اور راست بازی کے باعث اس داعیٔ حق کو لبیک کہنے کےلیے بالکل تیار تھے، حضرت ابوبکر صدیقؓ  جس دن ایمان لائے تو انھوں نے دین مبین و متین کی تبلیغ و اشاعت کو اپنا نصب العین قرار دیا  اور اپنے حلقہء احباب میں تلقین و ہدایت کا کام شروع کیا، چونکہ ایام جاہلیت میں ابوبکرؓ کا عثمانؓ سے ارتباط و تعلق تھا،  اور اکثر نہایت مخلصانہ دوستی رہتی تھی، ایک روز حسب معمول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے اور اسلام کے متعلق گفتگو شروع کی حضرت ابوبکر صدیقؓ کی گفتگو سے آپ اتنے متاثر ہوئے کہ بارہ گاہ نبوت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے، ابھی دونوں بزرگ جانے کا خیال ہی کررہے تھے کہ خود سرور کائناتﷺ تشریف لے آئے اور حضرت عثمانؓ کو دیکھ کر فرمایا: ” عثمان! اللہ کی جنت قبول کر، میں تیری اور تمام خَلق (مخلوق) کی ہدایت کیلئے مبعوث ہوا ہوں“۔ 

            حضرت عثمانؓ کا بیان ہے کہ زبان نبوت کے ان سادہ و صاف جملوں میں خدا جانے کیا تاثیر بھری تھی کہ میں بے اختیار کلمہ شہادت پڑھنے لگا اور دست مبارک میں ہاتھ دے کر حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔

           اسلام لانے کے بعد دوسرے صحابہ کرامؓ کو جس طرح مختلف ایذائیں برداشت کرنے پڑے اسی طرح سیّدنا ذوالنورین ؓ کو کفارقریش نے بڑی ایذائیں دیں، حتی کہ انکے چچا حکم بن عاص کے ہاتھوں سے بھی بہت تکالیف اٹھانے پڑے۔ یہاں تک کہ ظالم اپنے ظلم سے عاجز آگئے اور سیّدنا عثمان ذوالنورین ؓ کو رہائی ملی۔ 

بعد از اسلام:

               بعد از اسلام آپ ؓ ایک مدت تک کتابت وحی کی خدمات سرانجام دے رہے تھے،  کتابت وحی کے علاوہ آنحضرتﷺ کے نجی خطوط کا لکھنا بھی انکے متعلق تھا۔

             تمام اعمال صالحہ میں آپ کو منجانب اللہ عظیم الشان  توفیق عطا ہوئی تھی نماز تہجد کی یہ حالت تھی کہ رات کو بہت تھوڑی دیر سوتے تھے اور قریب قریب پوری رات نماز میں صرف ہوتی تھی نماز تہجدمیں روزانہ ایک ختم قرآن کا معمول تھا۔

            صائم الدھر تھے، ایام ممنوعہ کے علاوہ کسی دن روزہ ناغہ نہ ہوتا تھا جس روز شہید ہوئے اس دن بھی روزے سے تھے۔

            صدقہ دینے اور خیرات کرنے میں گویا تیز آندھی تھے ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرنے کا معمول تھا اور اگر کسی جمعہ کو غلام نہ ملتا تو دوسرے جمعہ دو آزاد کرتے تھے۔  حج وعمرے بھی بکثرت ادا فرمائے اور صلہ رحمی کی صفت میں تو شاید ہی کوئی انکا مثل ہو۔

            جب رسول خداﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو میٹھے پانی کی آپ کو اور آپﷺ کی اصحاب کو بڑی تکلیف تھی صرف ایک میٹھا کنواں تھا  جس کا نام بئر رومہ تھا اور وہ ایک یہودی کے قبضہ میں تھا وہ اسکا پانی جس قیمت پر چاہتا بیچتا، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اس کنویں کو خرید کر اللہ کی راہ میں وقف کردے اس کو جنت ملے گی، حضرت عثمان ؓ نے اس کنویں کو خریدکر وقف کردیا۔ 

            مسجد نبوی پہلے بہت چھوٹی تھی ایک زمین اس کے قریب بک رہی تھی، رسول خداﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اس زمین کو خریدکر میری مسجد میں شامل کردے اس کو جنت ملے گی، یہ زمین بھی حضرت عثمان ؓ نے بیس ہزار یا پچیس ہزار روپیہ میں خریدکر مسجد اقدس میں شامل کردی۔ آپؓ کے سخاوت و بزرگی کا ہر سو چرچا تھا۔ 

          جب ہجرت نبویﷺ کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو بدر سے لے کر تبوک تک تمام غزوات میں شریک رہے۔

شادی:

       حضرت عثمانؓ قبول اسلام کے بعد اس شرف سے مشرف ہوئے جو ان کے کتاب منقبت و فضیلت کا سب سے درخشاں باب ہے یعنی آنحضرتﷺ نے ان کو اپنی فرزندی میں قبول فرمایا، آپﷺ کی منجھلی صاحبزادی حضرت رقیہؓ کا نکاح پہلے ابولہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا مگر اسلام کے بعد عُتبہ کے باپ ابولہب کو آنحضرتﷺ سے اتنی عداوت ہوگئی تھی کہ اس نے اپنے بیٹے پر دباؤ ڈال کر طلاق دلوادی، تو آنحضرتﷺ نے اپنی صاحبزادی ممدوحہ کا دوسرا نکاح حضرت عثمانؓ سے کردیا، حضرت عثمانؓ اور حضرت رقیہؓ دونوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی، ظہور اسلام کی بعد اور حضرت لوطؑ کی بعد حضرت عثمانؓ اور انکے اہلیہ حضرت رقیہؓ پہلا جوڑا ہے جنھوں نے اسلام کےلیے ہجرت کی ہے، اور بعد ازاں مکہ مکرمہ لوٹ آئے اور پھر مدینہ منورہ ہجرت کی اور جب مدینہ آگئے تو اوس بن ثابت یعنی حضرت حسان بن ثابتؓ کے بھائی کے ساتھ قیام کیا، اس وجہ سے حضرت حسان بن ثابتؓ کو حضرت عثمانؓ سے بہت محبت تھی اور جب عثمانؓ شہید ہوگئے تو حضرت حسان بن ثابتؓ بہت روتے تھے۔

            حضرت رقیہؓ نے بہ زمانہ جنگ بدر انتقال فرمایا آپ کی تیمارداری کے سبب حضرت عثمانؓ جنگ بدر میں شریک نہ ہوسکے کیونکہ رسول اکرمﷺ نے حضرت رقیہؓ کی تیمارداری کرتے رہنے کا آپ کو حکم صادر فرمایا تھا اور جنگ بدر میں شرکت سے باز رکھا تھا،  جنگ بدر کی فتح کے بعد رسول اکرمﷺ نے حضرت عثمانؓ کو مال غنیمت میں سے مقررہ حصہ دیا تھا، اور شرکاء بدر کی مانند اجر بھی دیا تھا، اسلئے آپؓ کا شمار اہل بدر میں ہوتا ہے۔ جس روز جنگ بدر کی فتح کی خوشخبری قاصد مدینہ لایا یہ وہ دن تھا کہ حضرت رقیہؓ کو سپرد خاک کیا جارہا تھا، حضرت رقیہؓ کے انتقال کے بعد ان کی دوسری بہن ام کلثومؓ بنت رسول اللہﷺ کی شادی بھی حضرت عثمانؓ سے رسول اللہﷺ نے فرمائی۔ جنکا انتقال بھی مدینہ طیبہ میں سن ٩ ہجری کو ہوا۔  

         جس دن ام کلثومؓ کا انتقال ہوگیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا، ” اگر ہماری تیسری بیٹی ہوتی تو ہم آپ کو (عثمانؓ کو) نکاح میں دیتے“۔ 

اور حضرت علیؓ سے ایک روایت میں مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا” اگر میری چالیس(٤٠) بیٹیاں ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے (ایک ایک) عثمانؓ کو نکاح میں دیتا حتی کہ میرے پاس ایک بیٹی بھی نہ رہ جاتی“۔

       اس وجہ سے کہ رسول اللہﷺ کے دو بیٹیاں حضرت عثمانؓ کی نکاح میں آئیں آپ رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین ”یعنی دو نور والا“ کہا جاتا ہے، اور آپؓ کے القابات میں سب سے مشہور لقب بھی یہی ہے۔ 

خلافت:

          حضرت سیّدنا عثمان غنی ذوالنورینؓ، سیّدنا حضرت عمرؓ کے بعد  مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوگئے، حضرت عثمانؓ سے بیعتِ خلافت محرم کے اول میں سن ٢٤ ہجری بروز ہفتہ کو ہوئی تھی، آپؓ نے بارہ دن کم بارہ (١٢) سال تک چوالیس (٤٤) لاکھ مربع میل پر اسلام کا پرچم لہرایا تھا، اس عہد خلافت میں کابل سے مراکش تک طویل و عریض خطہ اسلام کے سایہ عاطفت میں آیا، سیّدنا عثمان ذوالنورین ؓ کے عہدِ خلافت میں فتوحات کا دائرہ بہت وسیع ہوا، افریقہ میں طرابلس، برقہ اور مراکش مفتوح ہوئے، ایران بھی مفتوح ہوگیا، ایران کے متصلہ ملکوں میں افغانستان، خراسان اور ترکستان کا ایک حصہ خلافت کے زیرنگیں ہوا، دوسری سمت آرمینیہ اور آذربائیجان مفتوح ہو کر اسلامی سرحد کوہِ قاف تک پھیل گئی۔ اسی طرح بحری فتوحات کا آغاز خاص سیّدنا ذوالنورینؓ کے عہدِ خلافت میں ہوا، عثمان ذوالنورین ؓ کے الوالعزمی نے خطرات کے پروا کیے بغیر ایک عظیم الشان بیڑا تیار کروایا اور جزیرۀ قبرص (سائپرس) پر اسلامی پھریرا بلند کیا۔ سیّدنا عثمان ذوالنورین ؓ کے دورِ خلافت میں فتوحات کی وسعت تو تھی ہی لیکن اس کے ساتھ آپؓ نے نظام خلافت میں بہتری، عمال کی مجلس شوریٰ کا قیام، صوبوں کی تقسیم، اختیارات کی تقسیم، چنانچہ چیف آف آرمی کا عہدہ آپ ؓ نے ایجاد کیا، اس سے پہلے ہر صوبے کا حاکم وہاں کے فوج کا افسر بھی ہوا کرتا تھا۔ حکام کی خفیہ طور تحقیقی  نگرانی، ملکی نظم و نسق میں تحسین، بیت المال کے مصارف میں اضافہ، مختلف صوبوں میں حکومتی دفاتر کےلیے عمارتوں کی تعمیر، رفاہ عام کےلیے سڑکوں، پُلوں، مسجدوں کی تعمیر، ملکی حفاظت اور رعایا کی آسائش کےلیے دارالخلافہ کے راستوں کو سہل بنادیا گیا، اس کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ چوکیاں، سرائیں، مہمان خانے، پانی کےلیے چشمے اور کنویں بنائے۔ خیبر کے سمت سے کبھی کبھار مدینہ میں خطرناک سیلاب آیا کرتا تھا جس سے آبادی کو سخت نقصان پہنچتا تھا، مسجد نبویﷺ کو بھی خطرہ پہنچنے کا احتمال تھا، اس لیے حضرت ذوالنورین ؓ نے مدینہ سے تھوڑے فاصلے پر مدریٰ کے قریب ایک بندھ بندھوایا اور نہر کھود کر سیلاب کا رخ دوسری طرف موڑ دیا، رفاہ عام کے تعمیرات میں یہ خلیفہ ثالث کا بڑا کارنامہ ہے۔ اسی طرح مسجد نبویﷺ کے تعمیر و توسیع، فوجی انتظامات میں بہتری آپ کے دور کے کارہائے نمایاں ہیں۔ 

           نیابت رسولﷺ کا سب سے بڑا اور اہم فرض مذہبی خدمت اور اسکی اشاعت و تبلیغ ہے، چنانچہ حضرت عثمانؓ کو اس کا ہر وقت فکر رہتا تھا، جہاد میں جو قیدی گرفتار ہوتے تو حضرت عثمان ؓ بذات خود انکے سامنے اسلام کے محاسن بیان کرتے اور ان کو دین متین کی دعوت دیتے تھے، غیرقوموں میں اشاعت اسلام کے بعد سب سے اہم خدمت خود مسلمانوں کی مذہبی تعلیم و تلقین تھی، اس لیے آپؓ بالمشافہ فقہی مسائل خود بیان کرتے تھے، اگر کوئی شبہ ہوتا تو دوسرے صحابہ ؓ سے استفسار فرماتے تھے، مسجد نبویﷺ تعمیر و توسیع کے ساتھ جب مدینہ کی آبادی اس قدر بڑھ گئی کہ جمعہ کے دن ایک اذان کافی نہیں ہوتی تھی، اسلئے آپؓ نے ایک اور مؤذن مقرر کیا جو مقام زوراء میں اذان دیتے تھے۔ مذہبی خدمات کے سلسلے میں آپؓ کا سب سے عظیم، اہم اور روشن کارنامہ قرآن مجید کو اختلاف و تحریف سے محفوظ کرکے اسکی عام اشاعت تھا، آپؓ نے عہد صدّیقی ؓ کے مرتَب و مدوَّن قرآنی نسخہ کے نقلیں کرائے اور اسکی اشاعت کی، اور دیگر نسخوں کو جن کو لوگوں نے بطور خود مختلف املاؤں سے لکھے تھے، صفحۂ ہستی سے بالکل معدوم کردیا۔ 

          شرافت و حیاء، بے نفسی آپکا طرۀ امتیاز تھا، خلفاء میں آپکو سادہ مزاجی، عاجزی اور فروتنی میں اعلی مقام حاصل تھا، سب سے زیادہ مالدار شخصیت تھے لیکن بایں ہمہ آپؓ کا اعلی اخلاق، خدا ترسی اور حسن سلوک ضرب المثل بن گیا تھا، دولت و ثروت اور مال و جائیداد میں سب سے پہلے ہونے کے باوجود جب خلافت کا بَارِگراں آپ کے کاندھوں پر آیا تب بھی آپؓ کی خشیت الہی، ورع و تقویٰ، للہیت و عبادت گزاری میں سرمو فرق نہ آیا، اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے آپؓ تجارتی سرگرمیاں جاری نہ رکھ سکے۔ اس طرح ذرائع آمدن محدود یا مسدود ہوگئے، ادھر دَریَادِلی، فیاضی، جود و سخا میں کوئی فرق نہ آیا، اس طرح آہستہ آہستہ دولت و فراوانی ختم ہوگئی۔ عزیمت کا یہ وہ راستہ تھا جس پر چل کر حضرت عثمانؓ نے ٤٤ لاکھ مربع میل کے وسیع علاقے پر اسلامی سلطنت قائم کی۔

          غلط فہمی اور کج روی کے باعث بعض قلمکاروں نے حضرت عثمانؓ کے دور کے ایسے واقعات پر بھی طعن کیا ہے، جس میں آپ نے بعض اقارب (رشتہ دار) کو رقوم عطا کیں تھیں۔ لیکن تمام کتابوں میں اس کی بھی تصریح موجود ہے کہ حضرت عثمانؓ نے جس کو بھی رقم دی اپنی گرہ سے دی۔ انھوں نے تو ١٢ سال تک قومی خزانے سے خود تنخواہ کا ایک روپیہ حاصل نہیں کیا، خلافت اسلامی کا یہ وہ اعجاز ہے جو سیّدنا ذوالنورین ؓ کے حصے میں آیا، اور اس پر جتنا بھی رشک کیا جائے کم ہے۔

اوصاف و کمالات اور فضائل:

      سفید رنگ مائل بہ زرد، خوبصورت وجاہت، متوازن قد و قامت، چہرے پر چیچک کے چند نشانات، داڑھی گنجان اور زلف دراز کے حامل حضرت عثمانؓ جب لباس زیب تن کرکے عمامے سے مزین ہوتے تو بڑے خوبصورت معلوم ہوتے تھے، آپؓ خوش شکل اور خوش قامت ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی سیرت و کردار سے بھی آراستہ تھے، اخیر عمر میں زرد خضاب بالوں میں لگاتے تھے اور دانتوں کو سونے کے تار سے بندھوایاتھا۔ بڑے پیمانے پر تجارت کے باعث شروع ہی سے دولت مند تھے، اسلئے لباس بھی اچھا اور عمدہ پہنتے تھے، آپؓ کی غذا عمدہ اور اعلی معیار کی تھی، آپؓ لذیذ اور نفیس غذاؤں کے عادی تھے، عرب میں بہت بڑے مالدار ہونے کے باوجود آپؓ کا طرز زندگی سادگی سے عبارت تھا، رہن، سہن اخلاق و اطوار اور اخلاق و کردار میں آپؓ آنحضرتﷺ کے طریقوں کو مشعل راہ بناتے۔ آپؓ کا ہر کام اتباع سنت سے آراستہ ہوتا۔ ایک مرتبہ آپؓ وضو سے فارغ ہو کر مسکرائے، لوگوں نے اس موقع پر مسکراہٹ کی وجہ پوچھی تو آپؓ نے فرمایا: ” میں نے رسول اللہﷺ کو وضو کے بعد اسی طرح مسکراتے دیکھا ہے“۔

          تقویٰ و طہارت حضرت عثمانؓ کا جوہر ذاتی تھا، گناہ و معصیت اور کفران و عصیان سے آپؓ کی طبیعت کو نفرت تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت عثمانؓ ان دس خوش نصیب صحابہؓ میں سے ہیں، جنکو نبیﷺ نے جنت کی بشارت دنیا میں ہی دی تھی۔

            حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّہﷺ احد پہاڑی پر چڑھ گئے اور آپﷺ کے ساتھ ابوبکرؓ، و عمرؓ، و عثمانؓ تھے، تو اچانک احد پہاڑ ہلنے لگا تو رسول اللہﷺ نے پہاڑ سے فرمایا ”احد پہاڑ! ٹھہر جاؤ، کیونکہ آپ پر ایک نبیﷺ، ایک صدیق، اور دو شہید ہیں“۔ 

          طلحہ بن عبیداللہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ: ”ہر نبی کا جنت میں ایک رفیق اور ساتھی ہوتا ہے اور جنت میں میرا رفیق عثمانؓ ہوگا“۔

         حضور اکرمﷺ کے ایک طویل حدیث میں ارشاد مبارک ہے کہ ” میں اس شخص سے کیوں حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں“۔

شہادت:

          حضرت عثمانؓ کے دور خلافت کے آخری سالوں میں آپؓ کی پے در پے کامیابیوں نے یہود و مجوس اور کفر و شرک کے خوگروں کو ناکوں چنے چبوادئیے تھے۔ وہ کسی بھی طرح عہد عثمانی کی وسعت اور ہمہ گیری کو برداشت نہ کرسکتے تھے۔ سامنے آکر جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں نے منافقوں کا ایسا لشکر تیار کیا جو حضرت عثمانؓ پر اقرباء پروری اور خیانت کا الزام لگانے لگا۔ منافقت اور دجل کے خواہوں نے مصر سے ایک سازش کا آغاز کیا، ساڑھے سات سو بلوائی ایک خط کا بہانہ بنا کر مدینہ منورہ پہنچے۔ بغاوت کا ایسا وقت طے کیا گیا جب مدینہ منورہ کے تمام لوگ حج پر گئے ہو صرف چند افراد یہاں موجود ہو ایسے وقت میں امیرالمؤمنین کو خلافت سے دستبردار کرواکر اپنے مذموم مقاصد حاصل کئے جائے، من مانی کاروائی کے ذریعے اسلام کے قصر خلافت کو مسمار کردیا جائے، رسول اللہﷺ کے شہر کو آگ اور خون میں مبتلا کرکے اسلام کی مرکزیت کو پارہ پارہ کردیا جائے، فتوحات اور کامیابیوں کے راستے میں پوری طور پر سد سکندری کھڑی کردی جائے، سن ٣٥ ہجری ذیقعدہ کے ماہ کے پہلے عشرے میں باغیوں نے امیرالمؤمنین سیّدنا حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کیا، لیکن سیّدنا عثمان ذوالنورین ؓ نے امت میں فتنہ و فساد برپا ہونے کے خوف سے باغیوں کی شورش میں بھی صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑا، اور ہمیشہ کی طرح امن کا پیغام دیا۔ 

         باغیوں نے قصرِ خلافت کا محاصرہ کیا، محاصرہ کے دوران آپؓ کا کھانا اور پانی بند کردیا گیا، تقریباً ٤٠ روز تک بھوکے پیاسے صبر و استقامت کے پہاڑ ٨٢ سالہ مظلومِ مدینہ حضرت عثمانؓ جمعہ کے روز ١٨ ذی الحجہ سن ٣٥ ہجری کو انتہائی بے دردی کے ساتھ تلاوت قرآن کرتے ہوئے شہید کردئیے گئے۔ 

😢انا للہ وانا اليه راجعون😥😭

           دو دن تک لاش مبارک بے گور و کفن پڑی رہی، حرم نبویﷺ میں قیامت برپا تھی، باغیوں کی حکومت تھی، انکے ڈر سے کوئی اعلانیہ لاش دفن نہیں کر سکتا تھا۔ ہفتے کا دن گزر کر رات کو چند آدمیوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر تجہیز و تکفین کی ہمت کی اور غسل دئیے بغیر اسی طرح خون آلود پیراہن میں شہیدِمظلوم کا جنازہ اٹھایا، اور کل سترہ افراد نے کابل سے مراکش تک لاکھوں مربع میل کے فرماں روا کے نمازِ جنازہ پڑھی۔ 

         سیّدنا عثمان ذوالنورین ؓ کو جس دن شہید کردئیے گئے اسی دن بھی آپ روزے سے تھے اور تلاوت قرآن کر رہے تھے، آپؓ پر باغیوں کا وار سر پہ ہوا تھا جسکے خون سے قرآن کریم کے سورة بقرہ کا آیت نمبر ١٣٧ خون ناب ہوا۔ ”فسیکفیکھم اللہ ۚ وھو السمیع العلیم“۔ 

           سیّدنا عثمان ذوالنورینؓ کا خون اتنا پاک و مقدس و قیمتی تھا کہ قرآن کریم نے زمین پر گرنے کی بجائے اپنے دامن میں لپیٹ لیا اور آپؓ کی شہادت کا شاہد تا قیامت بن گیا۔  

             آج بھی وہ مصحف اور قرآن مجید جو خلافت عثمانیہ میں خلفاء عثمانیہ ترکی لے گئے تھے، ترکی کی میوزیم میں محفوظ ہے اور شہیدِمظلوم سیّدنا حضرت عثمان ذوالنورین ؓ کا خون اس پر قائم و دائم ہے۔

            شہادت عثمان ذوالنورین ؓ یہ  پہلا واقعہ تھا کہ مسلمانوں کی تلوار مسلمانوں پر چلی، باب فِتن کھل گیا، برکات نبوت کا سلسلہ ٹوٹ گیا، اور اسلامی فتوحات کا دروازہ بند ہوگیا، مسلمانوں کی تلوار جو کافروں پر چلی تھی اب آپس میں ہی چلنے لگی۔ 

ازواج و اولاد:

           حضرت عثمان ؓ کے پہلی بیوی رسول اللہﷺ کی منجھلی بیٹی حضرت رقیہ ؓ تھی جو غزوۂ بدر کے دن وفات ہوئیں، ان کے بطن سے عبداللہ نام کا ایک بیٹا تولد ہوا لیکن وہ بچپن ہی میں فوت ہوگئے۔ اسکے بعد رسول خداﷺ کے چھوٹی بیٹی حضرت ام کلثوم ؓ نکاح میں آئی، لیکن وہ بھی نکاح کے چھ سات سال بعد وفات ہوئی، ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ اسکے بعد نکاحوں کا سلسلہ یہ ہے: 

فاختہ بنت غزوان:  

             ان کے بطن سے بھی عبداللہ نام ایک فرزند پیدا ہوا وہ بھی بچپن میں فوت ہوگیا۔ 

ام عمرو بنت جندب:

          ان کے بطن سے عَمرو، خالد، ابان، عُمر اور مریم پیدا ہوئے۔ 

فاطمہ بنت ولید:

            انکے بطن سے سیّدنا عثمان ؓ کے صاحبزادے ولید اور سعید پیدا ہوئے۔ 

ام البنین بنت عتییہ:

            ان کے بطن سے عبدالملک پیدا ہوئے جو بھی بچپن میں ہی فوت ہوئے۔ 

رملہ بنت شیبہ:

            انکے بطن سے عائشہ، ام ابان، ام عَمرو تولد ہوئے۔

نائلہ بنت الفرافصہ:

              یہ شہادت عثمان ؓ کے وقت موجود تھیں، ان کے بطن سے مریم پیدا ہوئیں۔ سیّدنا عثمان ذوالنورین ؓ کے صاحبزادوں میں نامور حضرت ابان ہوئے، انھوں نے بنوامیہ کے عہد میں خاصا اعزاز حاصل کیا تھا۔

                   رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی