امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا عمرفاروق اعظم ؓ

Syyedna Umar Farooq (r.a) 

     
  آپکا نام عمر، کنیت ابوحفص، القاب فاروق اعظم، شہید منبر و محراب، مراد نبیﷺ وغیرہ تھے۔ والد کا نام خطاب، والدہ حنتمہ بنت ہاشم تھی۔ 

         آپ ؓ کے دادا عَدی کے دوسرے بھائی مُرّہ تھے جو حضوراکرمﷺ کے اجداد میں سے ہیں، اس لحاظ سے حضرت عمرؓ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں رسول اکرمﷺ کے نسب مبارک سے مل جاتا ہے۔ 

ولادت اور قبول اسلام:

          آپؓ واقعہ فیل کے 13 برس بعد پیدا ہوئے، اعطائے نبوّت کے چھٹے سال 33 برس کی عمر میں مشرف باسلام ہوئے۔ 

          اسلام لانے سے قبل عمر اور ابوجہل نبی کریمﷺ اور مسلمانوں کی دشمنی میں سب سے زیادہ سرگرم تھے، اسلئے آپﷺ نے خصوصیت کے ساتھ ان ہی دونوں کےلیے اسلام کی دعا فرمائی، ”اَللّٰھمَّ اَعِزَّالاِسلاَمَ بَاَحدِ الرَّجُلَینِ اَمَّابْن ھِشامٍ امَّا عُمرَ بْن الْخَطاؓبِ“ یعنی اے اللہﷻ اسلام کو ابوجہل یا عمر بن خطابؓ سے معزز کر،  اور ایک روایت میں تو آپﷺ نے صرف عمرؓ کا نام ہی لیا ہے کہ اللہﷻ اسلام کو عمرؓ کی ذریعے سے معزز فرما۔

          چنانچہ اس وجہ سے آپؓ کو  ”مراد نبی“ کہا جاتا ہے، آپؓ کے اسلام لانے سے قبل بہت سے مرد اور عورت ایمان لاچکے تھے، آپؓ کے اسلام لانے کی نمبر میں اختلاف ہے کوئی 41 واں، کوئی 40 واں، بعض 45 واں بتاتے ہیں، حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ” رسول اللہﷺ پر 39 مرد و عورت ایمان لاچکے تھے پھر عمرؓ اسلام لے آئے تو 40 ہوگئے، پس جبرئیل علیہ السلام آسمان سے اترے اور اللہﷻ کی طرف سے یہ آیت مبارک لے آئے ”يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ حَسۡبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِینَ۞ 

         ترجمہ: اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! خدا تم کو اور مومنوں کو جو تمہارے پیرو ہیں کافی ہے۔ (سورہ انفال آیت نمبر64)

بعد از اسلام:

         آپؓ کی اسلام لانے کی بعد اسلام کا بول بالا ہوگیا اور مکہ میں اسلام ظاہر ہوگیا۔

          سیّدنا عمرفاروقؓ کا شمار بھی مہاجرین صحابہؓ میں ہے، آپؓ نے کھلم کھلا مدینے کی طرف ہجرت فرمائی۔ سیّدنا علیؓ سے ایک روایت کا مفہوم ہے، کہ ” میں نہیں جانتا کہ مہاجرین میں سے کسی نے کھلم کھلا ہجرت کی ہو سوائے عمرؓ کے، آپؓ نے جب ہجرت کا ارادہ کیا تو مسلح ہوکر مشرکین مکہ کے مجمعوں سے گزرتے ہوئے خانہ کعبہ پہنچے، اطمینان کے ساتھ طواف کیا، نماز پڑھی، پھر مشرکین کی طرف مخاطب ہوکر اعلان کرنے لگا کہ ”اگر کوئی اپنی ماں کو رلانا، اپنی بچوں کو یتیم اور بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہے تو وہ میرے پیچھے آکے مجھے روک لیں، علیؓ فرماتے ہیں کہ کسی نے ان کا پیچھا نہیں کیا“۔ 

غزاوات میں شرکت:

           سیّدنا عمرفاروقؓ حضوراکرمﷺ کی معیت میں جنگ بدر، اُحُد، خَندق، بیعة الرضوان، غزوہ خَیبر، فتح مکہ، جنگ حُنَین، وغیرہ سب محاذوں پر شریک تھے، اور آپؓ کفار پر بہت زیادہ سخت تھے، رسول اللہﷺ نے صلح حدیبیہ کے دن ارادہ کیا تھا کہ عمرؓ کو اہل مکہ بھیج دے لیکن عمرؓ نے کہا کہ یارسول اللہﷺ! مشرکین قریش سے میری سخت عداوت کو وہ جان چکے ہیں، اسلئے اگر ان کو موقع ہاتھ آئے تو وہ مجھے قتل کردیں گے، تو رسول اللہﷺ نے عمرؓ کو روکا اور حضرت عثمانؓ کو اہل مکہ کی طرف بھیج دیا۔ 

خلافت:

          آپؓ سیّدنا خلیفة النبیﷺ، امیرالمؤمنین، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد مسندِ آرائے خلافت ہوئے، آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے دس سال چھ ماہ دس دن تک 22 لاکھ مربع میل پر اسلامی خلافت قائم کی، آپؓ کے دور میں 3600 علاقے فتح ہوئے، آپؓ کے دور میں 900 جامع مسجد اور 4000 عام مسجدیں تعمیر ہوئیں، قیصر و کسریٰ دنیا کی دو بڑی سلطنتوں کا خاتمہ آپ ہی کی دور میں ہوا، آپؓ کے عہد خلافت میں عدالت کے ایسے بے مثال فیصلے چشم فلک نے دیکھے جن کا چرچا چاردانگِ عالم پھیل گیا، فتوحات میں عراق، ایران، روم، ترکستان، شام، مصر، آذربائیجان، جزیرہ، خوزستان، قادسیہ اور دیگر بلاد عجم پر اسلامی عدل کا پرچم لہرانا سیّدنا عمرفاروق اعظمؓ کا بے مثال کارنامہ ہے۔ 

         حضرت عمرؓ کے زریں اور درخشندہ عہد پر کئی غیرمسلم بھی آپؓ کی تعریف کئے بغیر رہ نہ سکے، حقیقیت میں آنحضرتﷺ کے آفاقی دین کی تعمیر و ترقی کے اوج ثریا پر پہنچانے اور دنیا بھر میں اسلام کی سطوت و شوکت کا سکہ بٹھانے کا سہرا حضرت عمر فاروقؓ کے سر ہے۔

اوصاف اور کمالات:

           سیّدنا عمر ؓ سفید رنگ مائل بہ سرخی، رخساروں پر گوشت کم، قد مبارک دراز وجاہت کے حامل تھے۔ 

           آپؓ جس طرح سخت تھے اتنی ہی نرم مزاجی، عاجزی و انکساری، اور زہد آپکا شیوۂ خاص تھا، طلحہ بن عبیداللہ فرماتے ہیں کہ ” عمر بن خطابؓ ہم سے اسلام لانے اور ہجرت کرنے میں پہلے نہیں تھے لیکن وہ ہم میں سب سے زیادہ دنیا کی معاملے میں بے رغبت اور زاہد تھے، اور آخرت کی معاملے میں ہم سب میں سے زیادہ رغبت کرنے والے تھے۔ 

         سادگی اور انکساری کا یہ حال کہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں ”میں نے عمرؓ کو دیکھا کہ آپؓ کے دونوں کندھوں کے درمیان قمیص میں چار پیوند لگے ہوئے تھے۔

          آپؓ پر موت کا ڈر اتنا غالب رہتا تھا کہ ہر وقت موت کو یاد رکھتے تھے، آپؓ کی انگوٹھی پر بھی لکھا تھا کہ ”کَفیٰ بِالْمَوْتِ وَاعِظاً یَاعُمرْ“ یعنی اے عمر! نصیحت کےلیے موت ہی کافی ہے۔ 

           آپؓ عدالت، شجاعت، اور بہادری کے ساتھ میدان علم کے بھی شہسوار تھے، حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ” اگر عمرؓ کا علم ترازو کی ایک پلٹرے میں رکھا جائے اور سارے لوگوں کا علم دوسرے پلٹرے میں رکھا جائے تو عمرؓ کا علم زیادہ بھاری اور راجح ہوگا۔ 

          ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ” میں دیکھتا ہوں کہ گویا مجھے دودھ کا ایک پیالہ تناول کیا گیا میں نے اس سے پیا اور باقی ماندہ دودھ میں نے عمرؓ کو دیا، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یارسول اللہﷺ! آپ اس کی کیا تاویل کرتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا ”علم سے۔ 

(یعنی اس دودھ سے مراد علم ہے)

فضائل:

          آپؓ کے بہت سے فضائل اور کمالات ہیں جو قرآن و احادیث مبارکہ میں وارد ہوئے ہیں، قرآن کریم کے بائیس (22) آیات ایسے ہیں جو عمرؓ کی رائے کے مطابق نازل ہوئے ہیں، اور وہ بائیس آیات گوشۂ علم میں ”موافَقاتِ عمرؓ“ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، اس عنوان پر الگ رسالے اور کتابیں بھی لکھی گئے ہیں، تفصیل کیلئے وہاں رجوع کریں، یہاں صرف اشارةً چند مقامات ملاحظہ فرمائیں۔

❶…مقام مقام ابراہیمؑ میں نماز کا حکم بھی آپؓ کے رائے پر تھا۔

❷…آپ کی خواہش تھی کہ عورتیں پردہ کیا کریں، چنانچہ آیتِ حجاب نازل ہوئی۔

❸…جنگ بدر میں مشرکین قیدیوں کے بارے میں آپؓ کی رائے تھی کہ ان کو قتل کیا جائے اور آپؓ کی علاوہ سب کی رائے تھی کہ ان سے فدیہ وصول کرکے ان کو چھوڑا جائے، چنانچہ فدیہ والے رائے پر عمل ہوگیا اور بعد میں اللہ تعالی نے سورة انفال کی آیت مبارک نمبر 68 نازل فرمائی اور ظاہر کیا کہ صحیح رائے عمرؓ کی تھی۔

 (یہ چند مقامات بطور مثال ہیں ان تمام موافقات کےلیے مولانا حافظ لیاقت علی شاہ نقشبندی کی رسالہ ”موافقاتِ سیّدنا عمرؓ“ ملاحظہ فرمائیں)

         احادیث میں آپ ؓ کی بہت فضائل مروی ہیں: 

❶…حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ ” ہم حضورﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ” کہ میں سو گیا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا پس اچانک ایک عورت ایک بنگلہ کی قریب وضو کر رہی تھی میں نے پوچھا کہ یہ کس کا بنگلہ ہے؟ تو اس عورت نے کہا یہ عمرؓ کا ہے، (حضورﷺ فرماتے ہیں کہ شاید میں بھی بنگلہ دیکھ لے تھا لیکن) مجھے عمرؓ کا غیرت یاد آیا اور میں واپس لوٹا، عمرؓ نے جب یہ بات سنی تو رونے لگے اور فرمایا ”أَعَلیْكَ أغَارُ یَارَسولَ اللہِ؟ کہ یارسول اللہﷺ کیا میں آپ پر بھی غیرت کرونگا۔

(مطلب یہ ہے کہ کیا میں آپ کو اپنے گھر دیکھنے سے منع کرونگا؟) 

❷…حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا” اہل آسمان میں سے میرے دو وزیر جبرئیلؑ اور میکائیلؑ ہیں، اور اہل زمین میں سے میرے دو وزیر ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں۔

❸…ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ”اللہﷻ نے عمرؓ کے زبان اور دل پر حق کو جاری فرمایا ہے۔ 

❹…عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتا۔ (لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں)۔

❺… ام المؤمنین سیّدہ حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، ”پہلے امتوں میں ایسے لوگ ہوتے تھے جن کو من جانب اللہ الہام ہوا کرتا تھا اگر میرے امت میں ایسا کوئی شخص ہے تو وہ عمر بن خطاب ہوگا۔ 

شہادت:

          حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کے ایک فارسی غلام فیروز نامی نے جس کی کنیت ابولؤلؤ تھی، حضرت عمرؓ سے اپنے آقا کے بھاری محصول مقرر کرنے کی شکایت کی اس کی شکایت بے جا تھی اسلئے حضرت عمرؓ نے توجہ نہ کی، اس پر وہ اتنا ناراض ہوا کہ چھپ کے حضرت عمرؓ کی قتل کا منصوبہ بنایا اور صبح کی نماز سے پہلے خنجر لے کر مسجد کی محراب میں چھپ گیا اور جب حضرت سیّدنا عمرفاروقؓ نے امامت شروع کی تو ابولؤلؤفیروزہ نے اچانک حملہ کردیا اور متواتر چھ وار کیے، حضرت عمرؓ گہرے زخم کے صدمہ سے گر پڑے تو حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ نے نماز پڑھائی، یہ ایسا کاری زخم تھا کہ اس سے آپ جانبر نہ ہوسکے لوگوں کے اصرار سے آپؓ نے چھ شخصوں کو منصب خلافت کیلئے نامزد کیا کہ ان میں سے کسی ایک کو جس پر باقی پانچوں کا اتفاق ہوجائے اس منصب کیلئے منتخب کرلیا جائے، ان صحابہ ؓ کے نام یہ ہیں، علیؓ، عثمانؓ، زبیرؓ، طلحہؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، اور عبدالرحمان بن عوفؓ۔ 

          اس مرحلہ سے فارغ ہونے کے بعد آپؓ نے حضرت عائشہؓ سے رسول اللہﷺ کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت لی۔ 

            وہ جگہ حضرت عائشہؓ نے اپنے لی منتخب کی تھی، لیکن اس موقع پر امی عائشہؓ نے ارشاد فرمایا کہ میں عمرؓ کو اپنے پر ترجیح دیتی ہوں یہ جگہ ان کے دفن کےلیے ہوگی۔ 

          اس کے بعد آپؓ نے مہاجرین، انصار، اعراب اور اہل ذمہ کے حقوق کی طرف توجہ دلائی اور اپنے صاحبزادہ حضرت عبداللہؓ کو وصیت کی کہ مجھ پر جس قدر قرض ہے اگر وہ میرے متروکہ مال سے ادا ہوسکے تو بہتر ہے، ورنہ خاندان عدی سے درخواست کرنا اور اگر ان سے ادا نہ ہوسکے تو کل قریش سے، لیکن قریش کے سوا اور کسی کو تکلیف نہ دینا، غرض اسلام کا سب سے ”بڑا ہیرو“ ہر قسم کی ضروری وصیتوں کے بعد تین دن بیمار رہ کر محرم کی پہلی تاریخ ہفتہ کے دن سن 24 ہجری میں راہ گزیں عالم جاوداں ہوئے اور اپنے محبوب آقاﷺ کے پہلو میں ہمیشہ کیلئے میٹھی نیند سوگئے، آپؓ کی نمازِ جنازہ سیّدنا حضرت صہیب رومیؓ نے پڑھائی۔ 

انا للہ وانا الیہ راجعون😢

         آپؓ ہمیشہ یہ دعا کرتے تھے”اَللّٰھُمَّ رْزُقْنِیْ شَھَادَةً فِیْ سَبِیـلِكَ وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُوْلِكَ“ یعنی اے اللہﷻ مجھے اپنے راہ میں شہادت نصیب فرما اور اپنے محبوبﷺ کے شہر میں مجھے موت نصیب فرما۔ 

         اس دعا ہی کی قبولیت تھی کہ آپؓ کو نبیﷺ کی مسجد، نبیﷺ کی مصلیّٰ، نبیﷺ کے محراب میں شہادت نصیب ہوئی، اور حضوراکرمﷺ کے پہلو میں دفن ہونا بھی۔

ازواج و اولاد:

         حضرت عمرؓ نے مختلف اوقات میں متعدد نکاح کیے، ان کی بیویوں کی تفصیل یہ ہے: 

①حضرت زینبؓ:…ہمشیرہ عثمان بن مظعونؓ، مکہ میں مسلمان ہوکر فوت ہوئیں۔ 

②قریبہ بنت امیة المخزومی:… مشرکہ ہونے کے باعث طلاق دی تھی۔ 

③ملیکہ بنت جرول:… مشرکہ ہونے کے باعث اس کو بھی طلاق دی تھی۔ 

④عاتکہ بنت زید:… ان کا نکاح پہلے حضرت عبداللہ بن ابی بکر ؓسے ہوا تھا پھر عمرؓ کے نکاح میں آئیں۔

⑤حضرت ام کلثومؓ:… رسول اللہﷺ کی نواسی اور حضرت فاطمہؓ کی نوردیدہ تھیں، حضرت عمرؓ نے خاندان نبوّت سے تعلق پیدا کرنے کےلیے 17 ہجری میں چالیس ہزار (40000) مہر پر ان سے نکاح کیا۔

         حضرت عمرؓ کی اولاد میں ام المؤمنین حضرت حفصہؓ اس لحاظ سے سب سے ممتاز ہیں کہ وہ رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات میں داخل تھیں، حضرت عمرؓ نے اپنی کنیت ابوحفص بھی ان ہی کے نام پر رکھی تھی، باقی اولاد کے نام یہ ہیں: حضرت عبداللہ ؓ، عاصم، ابوثحمہ، عبدالرحمان، زید، مجیر، ان سب میں حضرت عبداللہ ؓ، حضرت عبیداللہ اور حضرت عاصم اپنے علم و فضل اور مخصوص اوصاف کے لحاظ سے نہایت مشہور ہیں۔ 

                         فَرَضِیَ اللہ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی