Paharro Ka Safar |
چند روز پہلے دوستوں نے پہاڑوں کی تفریح پر جانے کی خواہش ظاہر کی، تو دوستوں نے آپس میں مشاورت کی اور تیاریاں شروع کیں۔ اور تفریح کیلئے ضلع سوات و ضلع دیر کی بارڈر کی پہاڑی سلسلہ جات سکائی لینڈ اور پاریال وغیرہ کی جگہ پسند کی۔ اور جانے سے پہلے والے دن کی عصر سے سفر کی تیاریاں، کھانے پینے وغیرہ کے سامان کا بندوبست کیا، تفریحی سفر کیلئے کل صبح سویرے نکلنے کا مشورہ ہوا، صبح نماز پڑھنے کی بعد دوستوں سے رابطے ہوئے اور اسکے بعد پیدل روانگی شروع ہوئی۔ ہر ایک دوست کو اسکے مناسب کا وزن اور سامان لے جانے کیلئے سپرد کیا گیا، دوست احباب کا یہ اس پہاڑوں کی طرف پہلا سفر تھا اسلئے بہت خوش و خرم تھے اور چست و چالاک تھے، پہلے تو سفر کیلئے تمام دوست بہت تازہ تھے لیکن چند چوٹیاں پار کرنے کی بعد احباب کمزور ہونے لگے۔ موسم بھی پہلے ہی سے ٹھیک نہیں تھا لیکن دوستوں نے کہا کہ اگر راستے میں بارش آ بھی جائے تو یہ برداشت کرینگے لیکن اس خوبصورت وادیوں اور پہاڑوں کی تفریح کرنے اور قدرت کی حسین نظارے دیکھنے کا یہی موقع ملا ہے اسے ضائع کرنا نہیں چاہیے۔
پیدل سفر جاری و ساری ہے دوست احباب اپنے درمیان میں بات چیت کر رہے ہیں، گپ شپ مار رہے ہیں، کبھی کبھی تھوڑی دیر آرام کیلئے ٹھہرتے ہیں پھر سے سفر شروع کرتے ہیں اور اپنے ٹارگٹ پہاڑ سکائی لینڈ کی طرف آسان سے آسان تر راستہ ڈھونڈتے ہوئے چلتے ہیں۔ راستے میں اتنگ پہاڑوں کی خوبصورت وادیوں اور ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، راستے میں تو کھانے کا انتظام کرنا چونکہ مشکل ہوتا ہے اسلئے دوستوں نے راستے کیلئے مونگ پھلی اور چنہ بسکٹ وغیرہ ساتھ لیے تھے وہ کھاتے اور پہاڑی چشموں کی خوبصورت اور میٹھا پانی پیتے، اور مزے لیتے تھے۔ راستے میں کئی بار ہلکی سے بارش بھی شروع ہوئی لیکن پھر رک گئی۔ یوں سفر اتنگ وادیوں میں جاری رہا، ایک پہاڑی پار کرنے کی بعد دوست کہتے کہ آنے والا یہ پہاڑ پار کرنا ہے اور بس پھر آگئے سکائی لینڈ (مقامی لوگوں کے درمیان اس جگہ کا تلفظ سَلِینڈ ہے) ہے، اس آنے والے پہاڑی کو پار کرنے بعد ایک دو اور پہاڑیاں پار کرنے ہوتے، تھکاوٹ کی حد باقی نہیں رہی۔
موسم بھی بہت خراب تھا ہر طرف دھند تھا کبھی کبھار تو دھند اتنی زیادہ ہوتی کہ ہمیں سامنے راستے کا پتہ بھی نہیں چلتا تھا تو دست مجبوراً دھند ختم ہونے تک بیٹھ کر انتظار کرتے تھے، اور جب ہی دھند ختم ہوجاتی تو راستہ سیدھا کرکے دوبارہ سفر شروع کرتے، جاتے جاتے آخر کار تقریباً دن بارہ بجے ہم سکائی لینڈ کے پہاڑ پر پہنچ گئے، وہاں سرسبز زمین، دلکش چوٹیاں، ٹھنڈا اور میٹھا پانی، گرمی کے ایام میں وہاں کا سرد موسم، اور خوبصورت و دلچسپ مناظر دیکھتے ہی خوشی سے دوستوں کی تھکاوٹ بالکل ختم ہوئی، وہاں پہنچتے ہی بارش نے آرام اور تھوڑا سا ٹھہرنے بھی نہیں دیا اور تیز بارش شروع ہوئی، وہاں ایک بہت بڑی پتھر جو کہ پشتو زبان میں ”خامار گٹ“ سے مشہور ہے (خامار پشتو زبان میں بڑے سانپ کو کہتے ہیں اور گٹ پتھر کو کہتے ہیں، یہ بڑا پتھر بھی سانپ کے شکل جیسا ہے) چند ساتھیوں نے اس کے نیچے بارش سے پناہ لی۔ ہمارے ساتھ ٹھاٹ وغیرہ کا بندوبست تھا لیکن بارش اتنی تیز تھی کہ ٹھاٹ کو سامان سے نکالنے تک ہم کافی حد تک بھیگ گئے تھے۔ اور اتنی سردی تھی کہ بیان نہیں ہوسکتی جبکہ ہمارے گاؤں میں اس وقت جون جولائی کے گرمی تھی۔ ایک طرف سردی اور بارش، تو دوسری طرف ہم شدید بھوک سے نڈھال رہے تھے، بارش سے خود کو بچانے کے بعد وہاں چند لوگ ہمارے قریب دوسرے گاؤں کے تھے ہم سے پہلے گئے تھے انھوں نے روٹی کھائی تھی اور اپنے لئے چائے بنارہے تھے، ہمارے چند ساتھیوں سے انکا تعارف ہوا وہ چونکہ بڑے تھے ہمیں نہیں پہچان رہے تھے البتہ ہمارے آبا و اجداد کو پہچانتے تھے۔ ان لوگوں نے ہماری ساتھ بہت تعاون کیا، ہمیں گرم چائے پلائی اور ساتھ بچی ہوئی روٹیاں بھی کھلائی، اس سردی اور بھوک کے عالم میں اس گرم چائے اور روٹیوں کا مزہ؟😜
Khamar Gat |
تمام دوستوں کی دلوں سے ان کےلیے دعائیں نکل رہیں تھیں، چائے پینے تک بارش بھی رک گئی تھی اور ہم میں تھوڑی دم بھی آگئی تھی۔ اس کے بعد ہم نے اپنی لئے روٹی کی تیاری شروع کی ہر دوست کو کوئی نہ کوئی کام سپرد کیا گیا، کھانا تیار کرنے میں خالہ زاد بھائی عمررحمان اور حافظ ظفرعلی صاحب نے بہت خوب محنت کی بلکہ تمام تفریح میں کھانے کا انتظام ان دونوں نے کیا اور تمام دوستوں کی خوب خدمت کی۔ اللہﷻ انکو جزائے خیر دیں۔ روٹی کھائی اور چائے بھی تیار کی گئی تھی وہ بھی پی گئی، اسکے بعد نماز ظہر ادا کیا، اور تھوڑی دیر کیلئے سکائی لینڈ کی زمینوں میں گھومتے رہے اس کے بعد دوستوں نے کہا کہ سکائی لینڈ سے بھی آگے پاریال جانے کی تیاریاں شروع کریں۔ اسی اثناء ہی میں دوبارہ ہلکی بارش شروع ہوئی، کبھی تھوڑی تیز بھی ہوجاتی، ہم اپنے ٹھاٹھ سے بنائے ہوئے ٹینٹ میں بیٹھے تھے اور بارش رکنے کا انتظار کر رہے تھے، لیکن ہمارے ٹینٹ کا ٹھاٹھ بہت کمزور تھا بارش کی قطرے نیچے گر رہے تھے، بارش تقریباً 15 منٹ بعد رک گئی اور ہم پاریال کی سفر پہ روانہ ہوئے۔ تھوڑی دیر جانے کی بعد جالہ باری دو بار شروع ہوئی لیکن تھوڑی دیر بعد رک جاتی، تیسری بار جو شروع ہوئی وہ بہت خطرناک تھی جالہ باری کا ایک ایک دانہ بہت بڑا تھا، جالہ باری بہت تیز بھی تھی، اور دوسری طرف آسمان بھی گرج رہا تھا اور ہم نے بڑے بڑے پہاڑی درختوں کے نیچے پناہ لی اور بجلی گرنے کا ڈر بھی تھا کیونکہ پہاڑی لوگوں کا کہنا ہے کہ آسمانی بجلی زیادہ تر اور عموماً درختوں پر گرتی ہے۔ ہر طرف خوف و ہراس کا سماں تھا، اس سنسان پہاڑ میں صرف بارش کی آواز اور بجلیوں کی گرج تھی اور اتنی زور سے کہ ہم دوست باجود قریب ہونے کے ایک دوسرے کی آواز نہیں سنتے، اور نہ کوئی نظر آرہا تھا۔ وہ دوست جو ایک لمحہ پہلے ایک رنگین دنیا میں تھے جنکے چہروں پر مسکراہٹیں تھیں، اب اس بارش اور جالہ باری کی ڈراؤنی اور پرہول صورت سےآزردہ اور خوف زدہ ہیں۔
Sky Land |
لیکن ہمارے ساتھ اس کی علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، دوستوں نے کہا اگر موت مقرر ہے تو ہم اس سے بھاگ نہیں سکتے، بس دعاؤں کا اہتمام کرنا ہے، ٹھاٹھ اگر نکالتے تو جالہ باری اس کو پھاڑ پھاڑ کے رکھ دیتی، ہمیں تو آگے اور بھی بہت سفر کرنا ہے نا! پاریال تک پہنچنے میں تو کافی راستہ باقی ہے وہاں کس چیز سے پناہ لیں گے؟ وہاں تو کوئی گھر، ریزورٹ اور ہوٹل بھی نہیں ہے، بس صرف ایک سرسبز و دلکش سنسان جگہ ہے، چاروں طرف پہاڑیاں ہیں۔ کچھ ساتھیوں نے تو واپسی کا کہا، لیکن چند ایک ساتھیوں نے کہا کہ واپس جانا بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ ہم نے صبح (5 بجے) سے اس وقت (تقریباً 3 بجے دوپہر) تک کا راستہ طے کیا ہے وہ بھی سارا کا سارا پیدل، اس سمے واپس ہم گھر بھی لوٹ نہیں سکتے کیونکہ راستہ بہت زیادہ ہے۔ اگر ممکن بھی ہو تو وہ بھی اس جالہ باری میں نہیں اس کے رکنے کے بعد ہوگا، اور جالہ باری رک جائے تو کیوں نہ ہم اپنا آگے کا سفر جاری رکھے؟
Paryal |
انتہائی گھبراہٹ اور خوف کا منظر تھا، بہت ڈر لگ رہا تھا، ساتھیوں نے سورة یس، ایة الکرسی وغیرہ دعاؤں کا اہتمام کیا، تقریباً 30 منٹ تک جالہ باری بصورت مصیبت بدستور جاری رہی، اس کی تھوڑی دیر بعد جالہ باری رک گئی اور ہم نے بدستور آگے کا سفر شروع کیا۔ یوں جالہ باری تو پھر بھی جاری تھی لیکن وہ خوف والی جالہ باری نہیں تھی اگر چہ تیز تھی، اس مشکل میں دوست ایک دوسرے سے بکھر گئے تھے ہر ایک کے ساتھ اپنا غم تھا اور دو دو تین تین اکٹھے ہو کر چل رہے تھے، کوئی بہت آگے جایا ہوا تھا تو کوئی بہت پیچھے تھا، تیز چلنے سے قاصر تھے کیونکہ جالہ باری بہت جمع ہوئی تھی اس میں گرنے کا خطرہ تھا، اور سردی میں گر کر کسی اندام یا عضو کا زخمی ہونا؟ الامان والحفیظ۔
ہم چلتے رہے اور جالہ باری برستی رہی۔ کپڑوں میں خشک جگہ نہیں تھی، سردی کی انتہا نہ تھی، دسمبر اور جنوری کی سردی تھی، یوں مصیبت میں پھنسے دوستوں کا سفر جاری رہا اور آخر کار ہم پاریال پہنچ گئے۔
وہاں پہنچتے ہی کچھ جانے پہچانے نوجوان مل گئے جن کا تعلق ضلع دیر سے تھا، وہ بھی دیر سے تفریح پر پاریال آئے تھے واپسی کی تیاری میں تھے کہ انکو بھی جالہ باری نے گھیرلیا تھا، ہم ان کے پاس تھوڑی دیر ٹھہرے، باہم گفتگو کی، حال احوال پوچھے، اور رات گزارنے کےلیے جگہ کی متعلق پوچھ لیا، تو انھوں نے کہا کہ پاریال سے تھوڑا آگے ایک بہت پرانی اور کچی مسجد ہے وہاں اگر کوئی نہ ہو تو قیام کرسکتے ہو۔ یہ بات سنتے ہی سب دوست پھر سے تازہ ہوگئے، اور مسجد کی طرف جانے لگے۔
Masjid |
پاریال کا جو سبز میدان تھا وہ جالہ باری سے سفید ہوا تھا بہت خوبصورت مناظر تھے لیکن تھکاوٹ اور سردی کی حد نہیں تھی۔ تھوڑی انجوائی کرنے کی بعد چلے گئے، جاتے جاتے مسجد تک پہنچ گئے، وہاں ہم سے پہلے ضلع دیر سے چند نوجوان آئے تھے انھوں نے قیام کیا تھا، وہ بھی کافی تعداد میں تھے وہ مسجد بھی چھوٹی تھی اسلئے ان کے ساتھ ہمارا قیام کرنا ممکن نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہم اس قریبی گاؤں سے آئے ہیں اپنا کھانا وغیرہ کھا کے واپس جاتے ہیں اور مسجد تمھیں خالی کرلیتے ہیں، یہ خبر سنتے ہی سب دوست خوشی سے جھوم اٹھے، وہ لوگ چلے گئے اور ہم نے مسجد میں قیام کیا، تمام احباب بہت خوش تھے اور بار بار اللہﷻ کا شکر کرتے رہے کہ اس نے ہمیں رات گزارنے کےلیے اس پہاڑوں میں اپنا گھر دیا۔ سردی بھی تھی تمام دوست سردی سے نڈھال رہے تھے کپڑوں میں خشک جگہ نہ تھی، مسجد میں آگ جلانے کی جگہ تھی لکڑیاں بھی کافی تعداد میں تھی، ہم نے بھی جالہ باری رکنے کی بعد لکڑی جمع کی، اور آگ جلائی۔ تمام احباب گرم بھی ہوئے اور جنھوں نے کپڑے ساتھ نہیں لائے تھے، انھوں نے کپڑے بھی خشک کیں۔
تھوڑی دیر بعد نماز عصر ادا کی، اور یوں ہی رات قریب آرہی تھی مسجد چونکہ پہاڑی علاقے کا تھا، بہت زمانے کا لگ رہا تھا، چھت لکڑیوں اور مٹی کا تھا اس لیے بہت بوسیدہ ہوچکا تھا، چند جگہوں میں سوراخ بھی ہوئے تھے جس سے آسمان دکھائی دے رہا تھا، بجلی نہیں تھی اور بھی روشنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، ہم نے شام کے کھانے کی تیاری شروع کی اور تاریکی تھوڑی تھوڑی زیادہ ہوتی گئی، ہم نے اپنے موبائل کے فلیش لائٹس سے اور آگ کی روشنی سے کام چلایا، کھانا تیار کرنے کی ضمن میں نماز مغرب کا وقت آیا ہم نے نماز پڑھی۔ اور بعد میں کھانا تیار ہوا ہم نے کھانا کھایا، نماز عشاء بھی وقت آنے پر ادا کی۔ اور سونے کی تیاری شروع کی۔
چند احباب سوگئے۔ لیکن سونا کیا تھا؟ پتھريلی زمین، چونکہ مسجد پہاڑی علاقے تھا کارپٹ چٹائی وغیرہ نہ تھی بلکہ درختوں کے پتے زمین پر بچائے ہوئے تھیں، تھکا ہوا جسم اور جنوری جیسے سخت سردی، اور جسم پر اوپر ڈالنے کےلیے کوئی کمبل وغیرہ نہیں تھا بس ایک چادر میں وہ سرد رات گزارنی تھی، اس میں آرام کیسے ہوسکتا تھا؟
اور چند احباب نے پہرہ شروع کیا، مسجد کا دروازہ بھی نہیں تھا بلکہ چند چھوٹی چھوٹی لکڑیوں سے ایک جال نما چیز بنایا ہوا تھا وہ دروازہ تھا، پہاڑوں کی بیچ میں رات گزارنا عموماً خطرے سے خالی نہیں ہوتی، لیکن ہم نے حفاظت کےلیے ساتھ دو بندوق بھی لیے تھے، پہرہ والے دوستوں نے وہ بھی ساتھ رکھ لئے تھے، اور مسلسل آگ جلاتے رہے اور قربانی دیتے رہے، آدھی رات کی بعد دوسرے احباب جاگ گئے انھوں نے پہرہ شروع کیا، یوں ہی مصیبت والی رات گزر گئی۔
صبح نو طلوع ہوئی، نماز پڑھنے کی بعد چائے پی لی، اور واپس روانگی کی تیاری شروع کی، تھوڑی دیر بعد روانگی ہوئی اور پاریال کی راستے واپس ہونے لگے۔ پاریال میں دوستوں نے خوب انجوائی کی، کیونکہ جالہ باری جو جمع ہوئی تھی وہ ختم ہوئی تھی، سرسبز اور بہت کھلی زمین تھی، اور وہاں سے پہاڑوں کا دل نشین اور درختوں کا دلچسپ منظر، اور دھیرے دھیرے طلوع ہونے والے دُرفِشاں نسیم صبح گاہی جسکے چارسو مچلتی کرنیں درختوں کے پتوں کے درمیان سے گزر رہے تھے اور جو افسون شب مصیبت تھوڑ رہی تھیں، یہ سب مناظر دلوں کو مخمور اور نظروں کو مسحور کر رہے تھے۔ ہم نے خوب لطف لیا، تصاویر بنائی، اور یہ لمحات ہمیشہ کےلیے قید کیے۔ اور پھر وہاں سے سکائی لینڈ کے سب سے بلند اور اونچی چوٹی پر چھڑنے کےلیے جانے لگے اور آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے کہ اس چوٹی پر چڑھنے اور انجوائی کرنے کے بعد پہاڑوں کی سروں سے ہوتے ہوئے واپسی کرینگے، تقریباً 30 منٹ میں ہم پاریال کی میدان اور سرسبز زمین سے سکائی لینڈ کی بلند چوٹی پر چھڑگئے، وہاں پر برف بھی تھی اور رات کو جالہ باری بھی ہوئی تھی اس وجہ سے پہاڑ بالکل سفید تھا، وہاں ہم نے بہت خوب انجوائی کی، اور دوستوں نے تفریح کے بارے میں وہاں ایک خوبصورت ویڈیو کلپ بھی ریکارڈ کی۔ بعد ازاں ہم وہاں سے پہاڑوں سے ہوتے ہوئے واپسی کا راستہ اختیار کرنے لگے، جاتے جاتے ہم سَیلِی سَر کی چشمہ کو ظہر تک پہنچ گئے وہاں ہم نے ظہرانہ کا انتظام کیا، اور پھر ہم پہاڑوں سے اترتے ہوئے اپنے گاؤں کی طرف جانے لگے۔ تقریباً 3 بجے دوپہر تک ہم اپنے اپنے گھروں کو پہنچ گئے، اور یوں یہ تفریح ہماری زیست کی ایک یادگار اور ناقابل فراموش تفریح بن گئی جو ہمیشہ کےلیے ہمیں یاد رہے گی۔
✍ حیدرعلی صدّیقی
15 جون 2020ء