✍🏻وسیم اکرم حقانی
غلامی خواہ جسمانی ہو یا ذہنی، جذباتی ہو یا تخیلاتی ہر صورتِ غلامی ایک کمر توڑ اور مذموم کیفیت کا نام ہے جس کی شدید اذیت تمام تر مذہبی، سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ وصفِ انسانیت ہی اس قبیح کیفیت کے ادراک کیلئے کافی ہے کہ ایک باشعور اور حقیقی انسان ہی غلامی کی زنجیروں کو محسوس کرتا ہے پھر چاہے وہ زنجیریں آہنی اور فولادی ہو یا عقلی و ذہنی، جتنا غلامی کا احساس ہوگا اس قدر آزادی کا خواب اور مطالبہ بھرپور ہوگا۔ غلامی،حسین و خوشنماء چادر میں لپیٹ کر بھی اگر کسی پر پیش کی جائے اور محکوم اور غلام قوم اس کو سربچشم اپنے اختیار سے بھی قبول کریں تب بھی غلامی انسانی اقدار کے خلاف اور الہی قوانین کے صریح خلاف ورزی تصور کی جائے گی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم بہت عرصہ جسمانی غلامی کی اذیت و تکلیف سہتے رہے جب نام نہاد جغرافیائی آزادی حاصل کر چکے تو ذہنی غلامی کی آہنی زنجیر ہمارے گلے ایسے چمٹی کہ ہم لاکھ کوششیں کریں اس لعنت سے چھٹکارا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔ لیکن تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ہم آزادی کے خواہاں نہیں رہے ہماری طبیعت غلامی کی اس قدر خوگر ہوچکی ہے کہ آزادی کے لفظ سے بھی خوف آتا ہے۔ اب ہمیں اپنے حقیقی خیرخواہوں سے بھی گھن محسوس ہوتی ہے جسکا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ ہم غلامی کے دلدل میں پھنستے چلے جا رہے ہیں اور اس کو قضاء الہی کا نام دے کر اپنے مردہ اور بےحس ضمیر پر بےرحم کوڑے برسا رہے ہیں۔ معاشرتی، اخلاقی غلامی اور دیوالیہ پن کے ساتھ ساتھ ہم معاشی طور پر بھی غلام بن چکے ہیں بلکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ معاشی لحاظ سے ہم کبھی آزادی کے نعمت سے بہرہ ور نہیں ہوسکے۔ صرف ہم ہی نہیں بلکہ تمام اسلامی ممالک معاشی لحاظ سے مغرب اور ان کے کارندوں کے غلام تھے اور اب بھی غلامی کی زندگی جی رہے ہیں اور احساس تک بھی باقی نہیں رہا کہ اس لعنت سے باہر نکلنے کی راہوں پر غور و خوض کیا جائے۔ غور و خوض کا عمل اگر شروع ہوچکا ہوتا تو اسی دن سے ہم درستگی کے جانب گامزن ہوتے لیکن ہمارے قلوب و اذہان ان کے ہاتھوں میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ جب چاہیں جس طرف چاہیں بآسانی اور سہج سے پھیرے جاسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سوچ و بچار کا عمل بھی تعطل کا شکار ہے۔ اس معاشی غلامی کی ایک ہی وجہ ہے کہ پوری دنیا پر مغربی قوتوں کا تسلط ہے۔ ماضی میں یا عصرِ حاضر میں جتنے بھی معاشی مسائل سامنے آتے ہیں وہی عقلِ انسانی ان مسائل کے حل کیلئے مختلف راہوں پر رختِ سفر باندھتی ہے لیکن ہم بحیثیت قوم اپنے عقل پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالنا پسند نہیں کرتے بلکہ مغرب کے پامال کردہ راہوں پر چلتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ معیشت کے ساتھ ساتھ ہمارے اخلاقیات اور تہذیب کا بھی جنازہ اُٹھتا ہے۔ چند فطری اور قدرتی معاشی مسائل ایسے سامنے آئے ہیں جن کے حل کےلیے ایک نظام کے تحت حل کرنے کی فکر ان آخری صدیوں میں کچھ زیادہ بڑھی اور ان مسائل کے حل کےلیے کئی متقابل نظریات وجود میں آئے۔ جیسے اہم معاشی مسئلہ ترجیحات کا تعین ہے کہ انسانی ضروریات اور خواہشات بےشمار جبکہ ان کے مقابلے میں وسائل انتہائی محدود ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ محدود وسائل سے تو لامحدود ضرورتوں اور خواہشوں کی تکمیل ممکن نہیں تو عقلِ انسانی کا فیصلہ یہ ہے کہ بعض ضروریات و خواہشات کو مقدم جبکہ بعض دیگر کو مؤخر کیا جائے۔ اب یہی ترجیحات کا تعین ہے کہ کس ضرورت کو مقدم کرنا ہے اور کس ضرورت کو مؤخر کرنا ہے تاکہ محدود وسائل کو استعمال کرتے ہوئے کثیر اور مہم ضروریات و خواہشات کو پورا کیا جائے۔ افراد کی طرح یہ مشکل ریاست کو بھی پیش آتی ہے کہ ریاست کیسے محدود وسائل سے کیسے لامتناہی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وسائل کی تخصیص دوسرا اہم معاشی مسئلہ ہے کہ ایک فرد یا ریاست کے ساتھ متعدد وسائلِ پیدوار ہیں لیکن ان کو کہاں اور کس مقدار میں استعمال کرنا ہے؟ اس کو معیشت کی اصطلاح میں "وسائل کی تخصیص" کہا جاتا ہے۔ پھر ان وسائل سے حاصل شدہ آمدنی اور سرمایے کو کیسے تقسیم کرنا ہے کہ ہر مستحق کو اپنا حق ملے سکے، اس کو آمدنی کی تقسیم کہتے ہیں اور یہ معیشت کا تیسرا بڑا مسئلہ ہے۔ چوتھا مسئلہ ترقی کا ہے کہ اپنے معاشی حاصلات کو معیار اور مقدار کے لحاظ سے کیسے بہتر کیا جائے۔ ان مذکور بالا مسائل کے حل کےلیے دو متضاد اور متقابل نظریات کیپٹلزم (سرمایہ دارانہ نظام) اور سوشلزم (اشتراکی نظام) ہمارے سامنے آئے۔
سرمایہ دارانہ نظام نے ان مسائل کا حل بہت سادہ سا تجویز کیا کہ انسان کو تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کیلئے بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے اور اسے مکمل اختیار دیا جائے کہ وہ جس طریقے سے مناسب سمجھے زیادہ سے زیادہ نفع کمائے اور زیادہ سے زیادہ سرمایے پر قبضہ کرے، تو یہ چاروں مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کیپٹلزم نے قانونِ رسد و طلب کا سہارا لیا ہے جو کہ قدرتی قانون ہے کہ بازار میں جس چیز کی رسد، طلب کے مقابلے میں زیادہ ہو تو اس کی قیمت گھٹ جاتی ہے اور جس چیز کی طلب اس کے رسد کے مقابلے میں بڑھ جائے تو اس کی قیمت خودبخود بڑھ جاتی ہے۔ ان کے فلسفے کے مطابق یہ قدرتی قانون ہی یہ طے کرتا ہے کہ کونسی چیز کس مقدار میں مہیا کئی جائے۔ ترجیحات کے تعین میں بھی یہی قانون معاون ثابت ہوگا کہ ہر شخص چاہے اپنے منافع کے خاطر کام کر رہا ہے لیکن رسد و طلب کی قدرتی طاقتیں اس کو مجبور کرے گی کہ وہ معاشرے کی طلب اور ضرورت کو پورا کرے تو معاشرے میں فقط وہی چیزیں اسی مقدار میں پیدا ہوگی جس مقدار کی معاشرے کو ضرورت ہو، اور یہی ترجیحات کا تعین ہے۔ آمدنی کی تقسیم میں سرمایہ دارانہ نظام آمدنی کا مستحق ہر اس کو قرار دیتا ہے جو کسی سطح پر پیدائش کے عمل میں شریک ہو۔ جیسے زمین، محنت، سرمایہ اور آجر یا تنظیم، انہی پر آمدنی تقسیم ہوگی، کیونکہ پیدائش کا عمل ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتا؛ لہٰذا حاصل شدہ آمدنی بھی ان کا حق ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ آمدنی کو کس مقدار و معیار میں تقسیم کرنا چاہیے؟ تو اس سوال کے جواب میں سرمایہ دارانہ نظام پھر قانونِ رسد و طلب کا سہارا لیتے ہوئے یہ حل تجویز کرتا ہے کہ جن عوامل کی طلب زیادہ ہو ان کو منافع بھی زیادہ ملنا چاہیے اور طلب کی کمی کے باعث منافع میں بھی مناسب کمی ہونی چاہیے۔ باقی رہا ترقی کا مسئلہ کہ اپنی پیدوار میں کمّاََ و کیفاََ اضافہ کیا جائے تو اس کیلئے ہر فرد کو آزاد چھوڑنا چاہیے تاکہ قانونِ رسد و طلب ان کو آمادہ کرے کہ وہ نئی سے نئی اور بہتر سے بہتر کوالٹی میں اشیائے ضروریات بازار تک پہنچائیں اور کوئی غیر موافق قوت ان کی راہ نہ روکے۔ فرد کو آزاد چھوڑنے کا نقد اور فوری فوائد اسی صورت میں معاشرے کے سامنے آئیں گے کہ اعلیٰ اور بہترین کوالٹی کے ضروریاتِ زندگی ہر خاص و عام کے دسترس میں ہوں گے۔ یعنی فرد کی معاشی میدان میں آزادی ناگزیر ہے یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ پراپرٹی، ذاتی منافع کا محرک اور حکومت کی عدمِ مداخلت ہی سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی اصول ہے، اگرچہ اس تیسرے اصول پر کما حقہ عمل ممکن نہ ہوسکا اور بعد میں سرمایہ دارانہ ممالک نے رفتہ رفتہ اس پالیسی کو محدود کیا اور حکومت ان پر اثر انداز ہوتی رہی۔ جس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت اس تیسرے اصل پر عمل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی کیونکہ مداخلت کی یہ صورت تو ہر روز دیکھنے کو ملی کہ حکومت بعض ذرائع اور وسائلِ پیدوار کی حوصلہ افزائی کرتی رہی اور بعض دیگر کو دیوار سے لگانے کیلئے ہر قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے۔
کیپٹلزم کے ردعمل میں سوشلزم یعنی اشتراکیت وجود میں آئی کہ کیپٹلزم میں معیشت کے تمام مسائل کو رسد و طلب کی اندھی بہری طاقتوں کے حوالے کیا جس میں فلاحِ عامہ اور غریبوں کی بہبود وغیرہ کا کوئی واضح اہتمام نہ تھا۔ بالخصوص آمدنی کے تقسیم میں انھوں نے غیر منصفانہ رویہ اختیار کیا۔ سوشلزم نے معاشی مسائل کو بھانپتے ہوئے ان کے حل کیلئے یہ فلسفہ پیش کیا کہ بنیادی خرابی یہاں سے پیدا ہوئی کہ وسائلِ پیدوار کو لوگوں کی انفرادی ملکیت قرار دیا گیا حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ تمام وسائلِ پیدوار افراد کے شخصی ملکیتوں کے بجائے ریاست کی اجتماعی ملکیت میں ہوں تو ریاست یہ فیصلہ بہتر کر سکتی ہے کہ کل وسائل کتنے ہیں؟ معاشرے کی ضروریات کیا کیا ہیں؟ اور کن ضروریات کو مقدم اور کن کو مؤخر ہونا چاہیے؟ وغیرہ وغیرہ! باقی رہا آمدنی کی تقسیم؛ تو سوشلزم کے فلسفے کے مطابق حقیقتاً عواملِ پیداوار دو ہیں، زمین اور محنت۔ اب زمین چونکہ انفرادی ملکیت میں ہے نہیں کہ اس کا معاوضہ طے کیا جائے باقی صرف محنت رہ جاتی ہے تو اس کا فیصلہ ریاست و حکومت اپنی جامع منصوبہ بندی کے تحت کرے گی کہ مزدور کو محنت کا کتنا مناسب نفع ملنا چاہیے۔ فرد کو آزاد کر کے کہیں معاشی خرابیوں نے سر اٹھایا اور سرمایہ اور دیگر وسائل سمٹ کر مخصوص طبقے کے ہاتھوں میں آگئے لہٰذا ان کی اجارہ داریوں کو ختم کرنے کیلئے یہ اقدام ضروری ہے کہ فرد کو ہر قسم کی ملکیت سے بےدخل کر کے تمام وسائلِ پیدائش کو قومی اور اجتماعی ملکیت میں لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشلزم کی بنیاد اجتماعی ملکیت، منصوبہ بندی، اجتماعی مفاد اور آمدنی کی منصفانہ تقسیم پر رکھی گئی ہے اور سوشلزم میں ذاتی و شخصی ملکیت کا تصور ہی نہیں! یہ سوشلزم کے خود ساختہ فلسفے کے خلاف ہے کہ کوئی فرد پرائیویٹ پراپرٹی کا مالک بن کر دونوں ہاتھوں سے سرمایہ جمع کرتا رہے بلکہ تمام وسائلِ پیدوار اور دیگر ذرائع حکومت کے تحویل میں ہوں گے اور فرد کو مناسب معاوضہ دیا جائے گا جس سے وہ دو وقت کی روٹی کھا سکے۔
یہ دو باطل اور باہمی متصادم نظریات کے نتائجِ بد ہوری دنیا نے دیکھے اور ان کے قبیح اثرات ایک ایک کرکے سامنے آ رہے ہیں کہ ان دونوں کے مابین قدرِ مشترک انسانی حقوق کا استحصال ہے جس کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اب ان کے اپنے پیروکاروں پر بھی واضح ہوگیا کہ کیپٹلزم نے کیسے ایک فرد کو منافع کے حصول میں بےلگام اور آزاد چھوڑا کہ وہ حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر سرمایہ جمع کرتا رہے، اور اس اندھیر نگری میں امیر کیسے امیر تر بنتا گیا اور غریب مزید غربت کے دلدل میں جا پھنسا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں سوشلزم نے فرد کو اتنا گھونٹ دیا کہ اس کی فطری آزادی بھی سلب ہو کر رہ گئی اور ہر جگہ سرکار کی منصوبہ بندی کو ہر مرض کا علاج قرار دیا۔ فطری اور پیدائشی حق سے محروم کر کے سوشلزم نے انسانی وقار کے ساتھ مضحکہ خیز کھلواڑ کیا اور کچھ لوگ اس کارنامے پر بھی خوشی کے شادیانے بجاتے رہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے پالیسوں کی مدد سے بکثرت شخصی اجارہ داریوں کی راہ ہموار کی تو سوشلزم نے اس سے بڑھ کر برسرِ اقتدار ٹولے کو پورے وسائل پر قابض کیا۔ یعنی سرمایہ دارانہ نظام نے چھوٹے چھوٹے سرمایہ دار پیدا کئے تو اشتراکی نظام نے ان سب کا خاتمہ کرکے ایک بڑے سرمایہ دار گروہ کی حوصلہ افزائی کی۔ کیپٹلزم نے سرمایے کی تحصیل کیلئے دوڑ دھوپ اور محنت کو فروغ دیا تو سوشلزم نے سستی اور کاہلی کی راہیں ہموار کئے، جس میں ذاتی جذبہِ کارکردگی ماند پڑ گیا اور انسان کی فطری صلاحیتیں ضائع و برباد ہوگئی۔ کیپٹلزم نے ریاست اور حکومت کو معاشی مسائل سے باہر پھینکا تو سوشلزم نے انتہائی جابر اور طاقتور ریاست کو مداخلت کی دعوت دی کہ ہمہ گیر ریاست کے ریاستی جبر کے بغیر سوشلزم کا وجود نامکمل ہے۔ یعنی سوشلزم مبینہ طور کیپٹلزم کے ردعمل کے طور پر وجود میں آئی لیکن مرض کے اسباب کی ٹھنڈے دل و دماغ سے تشخیص نہ کر سکی اور معاملے کی دوسری انتہاء پر جا کھڑی ہوئی جو اس سے بڑھ کر خطرناک ہے۔
جبکہ اس کے برعکس اسلام کا منصفانہ معاشی نظام اور عدلِ عمرانی کی شاہراہ سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان سے گزرتی ہے۔ اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیپٹلزم اور سوشلزم کے مقابلے میں اسلام کا معاشی نظام جس کو پوری انسانیت کیلئے امن و اطمینان کا ضامن بتلایا جاتا ہے وہ نظام کیا ہے؟ درحقیقت اسلام کا معاشی نظام کوئی خالص نظری فلسفہ نہیں ہے بلکہ یہ نظام سینکڑوں سال تک دنیا پر عملی طور پر نافذ بھی رہا ہے اس کی برکتوں کا دنیا مشاہدہ کر چکی ہے۔ لیکن یہاں یہ وضاحت پیش کرنا ضروری ہے کہ اسلام کوئی معاشی نظام نہیں بلکہ اسلام ایک دین ہے جس کے احکام ہر شعبۀ زندگی سے متعلق ہے جس میں معیشت بھی داخل ہے۔ اب دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح معیشت کے میدان میں بھی اسلامی تعلیمات موجود ہے، جس پر غور کرنے سے ایک مستحکم اور مضبوط معاشی فلسفہ سامنے آتا ہے۔ اسلام نے بازار کے قوتوں یعنی رسد و طلب کے قوانین کو تسلیم کیا ہے اور ان کے باہمی کشمکش اور باہمی امتزاج سے ایک متوازن معیشت کی یقین دہانی بھی کرائی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ کیپٹلزم میں اس محرک کو بالکل آزاد چھوڑا گیا جس کے نتیجے میں بےشمار خرابیوں نے جنم لیا جبکہ اسلام نے ذاتی منافع کے محرک کو برقرار رکھتے ہوئے تجارتی اور معاشی سرگرمیوں پر چند ایسی پابندیاں عائد کر دی جس پر عمل کرنے سے معیشت متوازن رہے گی۔ ان میں اول چند حلال و حرام کی ابدی پابندیاں ہیں جو ہر زمانے ہر جگہ نافذ العمل ہیں، مثلاً سود، قمار، اکتناز و احتکار وغیرہ۔ کیونکہ یہ چیزیں عموماً اجارہ داریوں کے قیام کا ذریعہ بنتی ہیں اور ان سے معیشت میں ناہمواریاں پیدا ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں بیشتر سرمایہ دار ممالک بھی ذاتی منافع کے محرکات پر کچھ نہ کچھ پابندیاں ضرور عائد کرتے ہیں لیکن وہ چونکہ وحی الہٰی سے مستفید نہیں ہوتیں اسلئے وہ متوازن معیشت کے قیام کیلئے کافی نہیں ہوتیں۔ اس کے ساتھ ہی اسلامی شریعت نے حکومتِ وقت کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ عموماً مصلحت کے تحت ایسی چیز یا فعل پر پابندی عائد کر سکتی ہے جو حرام تو نہ ہو بلکہ مباحات کے دائرے میں آتی ہو لیکن اجتماعی خرابی سے بچنے کیلئے ان پر پابندی لگانا جائز ہے۔ اس اصول کے تحت حکومت تمام معاشی سرگرمیوں کی نگرانی کرسکتی ہے اور جن سرگرمیوں سے معیشت میں ناہمواری پیدا ہونے کا اندیشہ ہو ان پر مناسب پابندی عائد کرنا حکومت کے وسیع تر اختیارات میں شامل ہے۔ اور اس کے ساتھ چند اخلاقی پابندیاں بھی عائد کی گئی کہ معاشی سرگرمیاں اور ان سے حاصل ہونے والے مادی فوائد انسان کے زندگی کا منتہائے مقصود نہیں بلکہ مقصود آخرت کی فلاح ہے، جس کیلئے انسان کو ہر دم تیاری کرنی چاہیے۔ ان قانونی پابندیوں کے ساتھ اسلام بحثیتِ مجموعی جس ذہنیت کی تعمیر کرتا ہے اس کی بنیاد سنگدلی، کنجوسی، بےرحمی اور خود غرضی کے بجائے ہمدردی، فراخ حوصلگی، سخاوت اور سب سے بڑھ کر خوفِ خدا اور فکرِ آخرت پر استوار ہوتی ہے۔ مملکتِ خدادا پاکستان کی تباہ حال معاشی نظام پر جس زاویے سے بھی غور کیا جائے، تباہی کی تقریباً ایک ہی وجہ کھل کر سامنے آتی ہے کہ معاشی نظام میں ہم نے مجموعی طور پر اسلامی تعلیمات کو پسِ پشت ڈالا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف تاریخی فیصلہ دیا جس سے معاشی دلدل میں پھنسے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ساتھ ہی بہت افسوسناک امر یہ بھی پیش آیا کہ سود کے خلاف شرعی عدالت کے فیصلے کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان، نیشنل بینک، مسلم کمرشل بینک، اور دیگر نجی بینکوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور اس کے خلاف اپیل دائر کی جس سے عوام میں شدید غم وغصہ پھیلا۔ عوام کا غصہ ایمانی غیرت کا تقاضہ ہے جبکہ اس تاریخی فیصلے کے خلاف اپیل ان لوگوں کی کمزوری ہے جو مدتوں عوام کے خون پسینے کی کمائی پر پل رہے ہیں۔ لیکن ایک مشترکہ اور اتحادی حکومت میں دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر اس قانونی جنگ میں پڑنا باعثِ تشویش ضرور ہے۔
سود کی حرمت قطعی ہے اور قرآن کریم میں جس سود کو حرام قرار دیا گیا ہے اس کے مفہوم میں کوئی گنجلک یا اشتباہ نہیں۔ قرآن کریم کے نصوص اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی مسلمان بھی سود کے معاملے میں لیت ولعل سے کام نہیں لے سکتا۔ شریعتِ اسلامیہ نے سود کے تمام طریقوں کو حرام قرار دیا ہے اور شبہِ سود سے بھی بچنے کا حکم دیا ہے۔ موجودہ دور میں ہونے والی ترقی اور تبدیلیوں کے پیشِ نظر سود کی کوئی نئی تشریح ممکن نہیں کیونکہ جس چیز کی تشریح و توضیح خود قرآن وحدیث نے کی ہو، جس پر فقہائے صحابہ و تابعین متفق رہے ہوں اور جس پر امت کا اجماع ہوچکا ہوں اس کی نئی تشریح قرآن وحدیث کی تحریف کا دوسرا نام ہے۔ آج کل یہ بحث عام ہے کہ اگر سود کو ختم کیا جائے تو متبادل نظام کیا ہے؟ متبادل نظام پیش کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ سودی بینکاری کا متبادل تلاش کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ مروجہ بینک جتنے کام جس انداز سے کر رہے ہیں وہ سارے کام کم و بیش اسی انداز سے انجام دئیے جاتے رہیں اور ان کے مقاصد میں کوئی فرق واقع نہ ہو، کیونکہ اگر سب کچھ وہی کرنا ہے جو اب تک ہوتا رہا ہے تو ”متبادل طریقِ کار“ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ مروجہ سسٹم انہی خطوط پر استوار ہو جس پر صدیوں سے گامزن ہے اور نتائج اسلامی اور شرعی تعلیمات کے موافق ہو۔ بلکہ متبادل کا مطلب یہ ہے کہ بینک کے جو کام موجود تجارتی حالات میں ضروری یا مفید ہیں ان کی انجام دہی کیلئے ایسا طریقِ کار اختیار کیا جائے جو شریعت کے اصولوں کے دائرے میں ہو اور جس شریعت کے معاشی مقاصد پورے ہوں۔ اور جو کام شرعی اصولوں کے مطابق ضروری یا مفید نہیں ہے اور جنھیں شرعی اصولوں کے مطابق ڈھالا نہیں جاسکتا، ان سے صَرف نظر کیا جائے۔ جو معاشی تقاضے اور ضروریات ناگزیر ہو ان کیلئے اولاََ تو شرعی راستہ تلاش کرنا ہوگا بصورت دیگر آگے بڑھ کر ان کو ترک کرنا ہوگا تاکہ مستحکم معاشی نظام کیلئے ابتدائی قدم یہی سے اٹھایا جائے۔
سودی بینکاری کے متبادل نظام کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل نے بہت عرصہ پہلے کئی بار متفقہ معاشی اصلاحات کے نکات پیش کیے ہیں، جنہیں ماہرینِ معیشت نے نہ صرف قابلِ عمل بتلایا بلکہ ایک مضبوط اور مستحکم معیشت کا ضامن بھی یہی متبادل نظام تجویز کیا؛ لیکن ملک کے مقتدر قوتوں نے آئیں بائیں شائیں سے کام لیکر ان کو فائلوں تلے دبا دیا۔ راقم کے محدود معلومات کے مطابق غالباً 1980 سے قبل بھی ملک بھر کے 118 نامور اور مقتدر علماء کرام نے 22 نکات پر مشتمل اسلامی معاشی اصلاحات کا ایک متفقہ خاکہ تیار کیا تھا جس کو عوامی حلقوں میں کافی پزیرائی ملی اور متعدد بار وہ قومی اخبارات میں بھی شائع ہوتا رہا اور یہ خاکہ جزؤی طور پر زیرِ غور بھی رہا جس کے نتیجے میں جنوری 1981 کو بلاسود بینکاری کا آغاز ہوا اور ایک نئے سیکم کے تحت غیر سودی کاؤنٹر کھول دئیے گئے۔ یہ فیصلہ بظاہر سودی نظام کے خاتمے کے حوالے سے انتہائی خوش آئند اقدام تھا لیکن اس مجوزہ سیکم کا جب باریک بینی سے مطالعہ کیا گیا اور اس کی فقہی حیثیت علماء کرام کے مجالس کا موضوع بنی تو یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ حکومت اس تعفن زدہ معاشی گندگی پر عطر چھڑک کر اور کچھ خوش نما پالش لگا کر اور اس گندگی کو دیدہ زیب عنوان کے تحت مزید استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً سودی بینکاری کے متبادل کے طور پر کئی معاشی پلان علماء کرام اور معاشی ماہرین نے باہمی مشاورت سے تیار کئے اور آج بھی اس قسم کے مثبت اور تعمیری تجویزات سامنے آ رہے ہیں لیکن اس پر عمل کرنے کی کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آتی۔ سیدھی سی بات ہے کہ بلاسود بینکاری کی اصل بنیاد نفع و نقصان کی تقسیم پر ہوگی اور بینک کا بیشتر کاروبار شرکت یا مضاربت پر مبنی ہوگا، البتہ جن کاموں میں شرکت یا مضاربت کارآمد نہ ہو وہاں متبادل راستے تجویز کئے جاچکے ہیں جس میں آسان راستہ بیع مؤجل کا ہے، جو اسلامی نظریاتی کونسل کا ماضی میں پیش کردہ اصلاحاتی رپورٹ کا بنیادی اور اہم نکتہ بھی تھا کہ بینک سود پر قرض دینے کے بجائے صارف کو مطلوبہ چیز بازار سے خرید کر مناسب نفع پر فروخت کریں اور معینہ مدت کے بعد وہ رقم وصول کرنے کیلئے مناسب منصوبہ بندی کریں۔ یہ متبادل حل صرف عارضی طور پر پیش کیا گیا تھا جس میں خاص شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دی گئی تھی لیکن عصرِ حاضر میں اس سے بڑھ کر جدید اور سود کے عنصر سے یکسر صاف و شفاف تجاویز بھی ماہرین پیش کرچکے ہے جن پر موثر عمل درآمد کی صورت میں سود کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنا نہ صرف ممکن ہے بلکہ انتہائی سہل اور آسان بھی ہے لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کیا ہم حقیقی معنوں میں اس معاشی غلامی سے نکلنا بھی چاہتے ہیں یا صرف پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کیلئے اس مسئلے کو ہوا دے رہے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ حکمران جماعت یا اس کے اتحادی اس فیصلے کو اسلامی تعلیمات کے موافق سمجھ کر صدقِ دل سے تسلیم بھی کر رہے ہیں یا صرف عدالت کا حکم سمجھ کر چپ سادھ لی ہے؟ لیکن اتنا ضرور سمجھتا ہوں کہ تمام سیاسی جماعتیں اس گندگی سے فی الفور ہاتھ بند نہیں روک سکتے۔ سودی نظام میں دولت اور سرمایے کا رخ ایک جانب گامزن ہوتا ہے جس کی اکثریت ہمارے پارلیمان میں براجمان ہیں لیکن سودی نظام کی استحصالی کاوشیں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سرمایہ دار گروہ اس فرسودہ، حرام اور غیر اخلاقی سرگرمی کو طول دینے کے درپے ہیں کہ یہ تعفن زدہ معاشی نظام جاری رہے تاکہ ان کی تجوریاں بھری اور زرق برق رہے؛ لیکن دوسری جانب اس کمرتوڑ معاشی سسٹم نے غریب عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے اور قرضوں تلے دبتے غریب عوام حسرت بھری نگاہوں سے اپنے نمائندوں کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ ہمیں اس اذیت سے نجات دلانے میں کوئی کردار ادا کریں گے۔
ملک میں موجود سیاسی عدمِ استحکام اور اخلاقی بحران بھی اس فیصلے پر کافی اثر انداز ہورہا ہے کہ جدی پشتی کے مخالفین اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے اس شرعی مسئلے کو آڑ بناکر گیند کی طرح فضاء میں اچھال رہے ہیں لیکن اس کے سنگین نتائج ان کے نظروں سے اوجھل ہو چکے ہیں۔ یہی ہماری ملکی سیاست کا طرۂ امتیاز ہے کہ ہم سیاسی مقاصد کیلئے ملکی سالمیت تک کے ساتھ کھیل جاتے ہیں اور بازپرس کا خوف بھی دامن گیر نہیں ہوتا۔ لیکن اس مسئلے کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے تمام پولیٹیکل پارٹیوں کو سیاسی اختلاف بالائے طاق رکھ کر، سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر کردار ادا کرنا ہوگا، تاکہ ملک میں ایک مستحکم معاشی نظام کی راہ ہموار ہو اور اسلامی و شرعی اصولوں پر استوار معاشی نظام کا قیام ممکن ہو۔ اور ساتھ ہی مذہبی جماعتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس فیصلے کا کریڈٹ بٹورنے کے بجائے سنجیدگی اور سکون کے ساتھ اس پیش رفت کو آگے بڑھائیں تاکہ سود کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
ختم شد