لکھائی کی تاریخ |
لکھاری کی ضرورت و اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاتا، دنیا کی ہر چیز لکھاری ہی کے بدولت ہے، بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ دنیا جہاں کے سارے آب و تاب لکھاری ہی کے دم سے ہیں۔ تب ہی تو رب کائنات نے ”والقلم وما یسطرون“ کی قسم کھا کے اس حقیقیت کو آشکارا کیا۔ انسانی تاریخ میں پہلے لکھنے کا رواج نہ تھا بلکہ زبانی باتیں ہوتے تھے، سب سے پہلے قلم کے ذریعے لکھنے کا طریقہ پیغمبر خدا حضرت ادریس علیہ السلام نے ایجاد کیا۔ اس سے پہلے لوگوں کی ایک خواہش تھی کہ کوئی ایسا طریقہ ہو جس میں منہ کھولے اور کچھ بولے بغیر انسان دوسرے انسان سے اپنی مافی الضمیر کا اظہار کرے، اپنے احساسات کو بیان کریں، جو حاضرین کے ساتھ غائبین تک بالکل انھی الفاظ میں پہنچے۔ لیکن لوگوں کے پاس اس کےلیے کچھ وسیلہ نہ تھا، سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام نے قلم سے لکھنے کا طریقہ ایجاد کیا، اور یوں لوگ بغیر کچھ بولے اپنے احساسات اور مافی الضمیر کا بیان کرنے لگے۔
دنیا میں نسل انسانی کے مختلف ادوار کے کہانیاں، تاریخ و ثقافت، علم و حکمت، سائنس و ٹیکنالوجی جو آنے والی نسلوں تک پہنچی ہے یہی اس لکھاری کے دم سے ہیں۔
اگر لکھاری نہ ہوتا تو انسانی نسل کا سلسلہ تو چلتا ہی لیکن ہر دور کے مطابق زندگی گزارنا ان کےلیے مشکل ہوتا۔ کیونکہ جو نسل اپنے گزشتہ نسل سے منقطع ہوجاتی ہے تو وہ ضرور ناکامی کا شکار ہوتی ہے، اور ان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ اسی صورتحال سے بچانے کےلیے لکھاری نے ان سے رشتہ قائم رکھا، اور ان گزشتہ نسلوں کے تعلیمات کو موجودہ نسل تک پہنچایا اور موجودہ نسل کی تعلیم و حکمت کو لکھ کر آنے والی نسل کےلیے محفوظ کیا، کیونکہ آنے والی نسل سے یہی ایک واسطہ ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے
کچھ نہ کچھ لکھتے رہو تم وقت کے صفحات پر
یہی تو واسطے رہیں گے نسلِ نو سے
دنیا میں آپ دیکھ لیں کہ جتنے بھی مہذب اور ترقی یافتہ قومیں ہیں، وہ اپنے تاریخ، ثقافت، کارناموں اور ایجادات کو اپنے آنے والی نسل تک پہنچانے کےلیے صفحۂ قرطاس پر رقم کرتے ہیں۔ گو کہ وہ قومیں تاریخ ساز نہیں ہوتے پر تاریخ نگار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو ایسے قومیں سامنے آئیں گے جن کے غیرت و شجاعت، بہادری اور کارناموں کے داستانیں زبان زد عام ہیں لیکن چونکہ وہ تاریخ ساز ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ نگار نہ تھے اسلئے ان کا نام و نشان مٹ گیا۔
آپ اس مذکورہ صورتِ حال سے اندازہ لگائیں کہ لکھائی کی اہمیت و ضرورت کتنی اشد ہے! ایک طرف وہ قوم جو ہر حال میں شکست خوردہ ہے، لیکن تاریخ نگار ہے، پڑھنے لکھنے والا ہے، اس کے بدولت آج وہ طریقہ یافتہ ہے۔ اور دوسری جانب وہ قوم جن کے بہادری کے افسانے مشہور ہیں، ان کے بہادری کا ذکر صرف ان افسانوں کی حد تک محدود ہے۔ یہ کیوں؟ اس لئے کہ وہ تاریخ نگاری پر وقت ضائع کرنا نہیں چاہتے تھے۔ گو ان کے کارناموں کو چند نسلوں تک یاد رکھا گیا لیکن باقاعدہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے وہ دھیرے دھیرے بھول گئے۔ اور آہستہ آہستہ ان کے نسل نو کی ترقی زوال پذیر ہوتی گئی۔
اس دل خراش صورت حال سے بچنے کےلیے لکھتے رہو!
لکھتے رہو ہر نمرودِ وقت کے خلاف تا کہ ابراہیمیؑ برکات نازل ہوتی رہیں۔
لکھتے رہو ہر فرعونِ عصر کے خلاف تا کہ موسویؑ انوارات چمکتی رہیں۔
لکھتے رہو ہر ابوجہل دور کے خلاف تا کہ روح بلالی ؓ خوش رہے اور اذانِ بلالی ؓ گونجتی رہے۔
لکھتے رہو ہر جفاکار یزیدی کے خلاف تا کہ غیرت و محبت حسینی ؓ جاگتی رہے۔
لکھتے رہو ہر جبر، تشدد، ظلم اور نا انصافی کے خلاف تا کہ مشن نبویﷺ جاری رہے۔
لکھتے رہو ہر سرمایہ دار کے خلاف تا کہ فقر فخر نبوّتﷺ سکون سے رہے۔
لکھتے رہو تا کہ انقلابی، جذباتی اور تحریکی خون جوش مارتا رہے۔
لکھتے رہو یہاں تک کہ
رہے نام اللہ کا