اسلام اور شدت پسندی

اسلام اور شدت پسندی


✍️وسیم اکرم حقانی

(مصنف سے رابطہ کریں)

اسلام دشمن عناصر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف اوقات میں نامناسب عنوانات کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے وقار کو مجروح کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ اور اسلام کی آفاقیت اور عالمگیریت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے وہ اسلام کو ایک ناقابلِ نفاذ و عمل دین بتلاتے ہیں۔ اور اس عمل کو انھوں نے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل میں منظم کیا اور دنیا کے ہر کونے میں اسلام کے خلاف زہر اگلنے لگے۔ دقیانوسیت کے ٹائٹل کو استعمال کرتے ہوئے آج سے بہت عرصہ قبل مغربی قوتوں نے اسلام کے وقار کو مجروح کرنا شروع کیا اور یہ تاثر پھیلانے لگے کہ اسلام اور مسلمان دقیانوسیت پسند ہے، وہ دنیا کے رفتار کے ساتھ چلنا نہیں چاہتے بلکہ وہ پرانے اور قدیم طرز زندگی کو اپنانے پر بضد ہیں اور ظاہری بات ہے کہ جدید دنیا اس نظریے اور سوچ کے حاملین اور مذہب کو قبول نہیں کرسکتی۔ اس پروپیگنڈے کو منظم طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اور تھیوری آف نان ایشوز کا سہارا لیتے ہوئے عالمی سطح پر اسلام کو ایک انحطاط پذیر و رجعت پسند مذہب کے طور پر پیش کیا۔ لیکن یہ پروپیگنڈہ زیادہ تر تک موثر ثابت نہ ہوا اور انھوں نے اسی تحریک کو مختلف عنوانات تبدیل کرتے ہوئے جاری رکھا۔ اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑا گیا اور مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ کر پوری دنیا میں بدنام کرنا شروع کیا لیکن بہت جلد ہی ان مغربی قوتوں کی دہشت گردی کا پول کھل گیا اور پوری دنیا نے مصر، شام، لبیا، فلسطین اور افغانستان میں ان حیوانی کارندوں کے ان رنگ رلیوں کا مشاہدہ کیا جس سے اکثر آنکھیں دیکھنے اور کان سننے سے انکار کرتے ہیں۔

اب عصرِ حاضر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدت پسندی کا شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ اسلام شدت پسندی کا داعی مذہب ہے اور مسلمان اس عصر کے وہ بنیاد پرست ہے جس کو دیکھ کر ان بنیاد پرستوں کی یاد تازہ ہوتی ہے جنہوں نے اظہار رائے کے جرم میں بہت سے بےگناہوں کو موت کی گھاٹ اتار تھا اور تحقیق کے جرم میں بہت سے سائنس دانوں کی زبانوں کو کاٹ کر ان کو آگ میں جلا کر راکھ کیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے نہ تو اسلام کو سمجھا ہے اور نہ ہی پڑھا ہے۔ کیونکہ اسلام خود شدت پسندی کا سب سے بڑا حریف اور مقابل ہے۔ ذہنی و فکری جمود کی اولین مذمت اسلام نے کی ہے اور اس کی بہترین مثالیں عہدِنبویﷺ میں موجود ہیں اور تاریخ اسلام اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ اسلام نے کس منظم اور تدریجی عمل سے شدت پسندی کی راہ روکی ہے۔ عصرِ حاضر میں چند مسلمانوں کے ذہنوں پر شدت پسندی اور جمود کا غلبہ ہوا ہے لیکن وہ اسلام کی حتمی اور قطعی تصویر ہرگز نہیں کہ ان کی بنیاد پر اسلام اور مسلمانوں کو شدت پسندی کا علمبردار سمجھا جائے۔

اسلام سختی، ظلم، یا شدت پسندی کا دین نہیں ہے، یہ عفو و درگزر اور تحمل کا پیام بر ہے۔ جیسا کہ بزرگان دین نے اپنی زندگی تحمل اور برداشت سکھانے میں صَرف کردی اور ان میں ہر ایک اپنے وقت کا محبت اور تحمل کا امام تھا۔ 

فخر کائنات ﷺ محبت اور الفت کا نمونہ تھے۔ جناب نبی کریمﷺ نے غیرمسلموں کو بھی بُرا کہنے سے روکا ہے۔ قرآن کریم بڑی شدت سے عفو و درگزر اور تحمل پر زور دیتا ہے، ایک آیت میں نیک لوگوں کی صفت یوں بیان کی گئی ہے کہ ’’ وہ غصے کو پی جاتے ہیں، اور دوسروں کو معاف کر دیتے ہیں، اور اﷲ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

ذرا سوچیں! کہ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کو کس قدر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کا جینا دوبھر کیا تھا لیکن غلبہ حاصل کرنے کے بعد اسلام کی حقیقی روح کو پوری دنیا پر واضح کرتے ہوئے نبی کریمﷺ نے کس قدر فراخدلی اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف ان مشرکین و کفار کو معاف کیا بلکہ ان کے چند نامور سرداروں کو مخصوص اعزازات سے بھی نوازا۔ اس تصور کو آپ وقتی کہہ کر ٹھکرا نہیں سکتے کیونکہ خلافتِ اسلامیہ کے قیام کے بعد عہدِنبویﷺ میں ان غیر مسلموں کو اسلامی ریاست میں رہنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ ان کے حقوق کا تحفظ بھی ریاست نے اپنے ذمے لیا اور خود نبی کریمﷺ نے کس قدر سختی سے تاکید فرمائی کہ کوئی بھی غیر مسلم پر زیادتی کا سوچ بھی نہ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ عہدِ نبویﷺ اور خلافتِ راشدہ کے زمانے میں غیر مسلم مکمل آزادی کے ساتھ اسلامی ریاستوں میں خوش و خرم رہتے تھے اور اپنی عبادت وغیرہ بھی کرتے تھے، حالانکہ شدت پسندی کا تقاضہ تو یہ ہرگز نہیں۔ لیکن رسول اللہﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل اسلام کا حقیقی چہرہ دنیا کو اس طرز پر متعارف کروایا کہ آج کچھ قوتوں کے چیخنے چلانے سے کوئی باشعور شخص یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اسلام شدت کا مذہب ہے۔

لیکن مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ ان اسلام دشمن عناصر کی نگاہیں مسلمانوں کی باہمی اختلافات پر مرکوز ہے کہ مسلمان کس شدت کے ساتھ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، اور ہر کوئی دوسرے کو کافر کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ لیکن یہ واضح ہے کہ مختلف مذاہب اور مسالک میں جہاں نرم رویہ اور سہولت پسندی آگئی ہے، وہیں ابھی بھی مذاہب میں کئی دوسرے پہلوؤں سے شدت پسندی اور جمود موجود ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔ اسلام میں بھی اس حوالے سے باہمی اختلافات کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ جمود ظاہر ہوا ہے لیکن یہ اسلام اور مسلمانوں کے باہمی مسائل ہیں۔ ہر مکتب فکر میں کچھ غلطیاں بھی ہیں اور کچھ صداقتیں بھی، لیکن اس فرقہ کے ماننے والے بہرحال اس مسلک کو ہر غلطی و کوتاہی سے مبرأ مانتے ہیں، حالانکہ حقیقت جس کی طلب میں سارے مسالک تگ و دو کررہے ہیں وہ صرف اور صرف ایک ہی ہے۔ تو ہر گروہ اور مسلک یہی سمجھتا ہے کہ اسکا مذہب اور مؤقف ہی اس حقیقت تک پہنچا ہوا ہے جو مطلوب اور مقصود ہے۔ ہر مذہب اور شخص اپنے موقف اور نظریہ کی لاج رکھتے ہوئے یہی سوچتا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں ابھی تک صحیح جگہ پر ہے اور اسی طرح ہی وہ شخص اجتہادی اجر کا مستحق ہے۔ یقین اور اطمینان بھی ایسے ہی حاصل ہوتا ہے جو ایمان کا جزو لازم ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کسی بھی شخص یا مذہب کو یہ سوچنے کا بالکل بھی حق نہیں کہ وہ جس موڑ پر ہے یا جس نظریہ کا حامل ہے وہی حتمی اور فائنل مؤقف ہے یا جس مذہب کا وہ حامل ہے صرف اور صرف یہی نجات دہندہ ہے باقی مذاہب جہالت اور گمراہی میں غرق ہیں اور وہ اس وقت تک فلاح نہیں پاسکتے جب تک وہ میرے مذہب کو اختیار نہیں کرلیتے۔ جبکہ ہم لوگ ایسا ہی سوچتے اور بتاتے ہیں جو کہ جمود اور شدت کو جنم دیتا ہے اور پھر انتہا پسندی اور شدت پسندی مسلمانوں کے اندر تیزی سے بڑھتی ہے۔ اور ابھی تک مسلمان اپنے اوپر سے شدت پسند قوم کا پبلکلی لیبل نہیں اتار سکے اگرچہ آفیشلی اسلامو فوبیا ڈے بھی منعقد ہوچکا ہے۔ لیکن اس کی مثال یہ ہے کہ فرض کریں کہ آپ نے کسی شخص کو کہا کہ جس مؤقف پر آپ کھڑے ہیں یہی نجات دہندہ ہے اور اس سے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کی صورت میں تباہی اور زوال تمارا مقدر ہے، اور ایسا ہر کوئی اپنے ہم خیال دوستوں کو یہی کہنے لگ جائے تو سوچئے کہ وہ لوگ کیسے کسی دوسرے مذہب اور مکتب فکر کو پڑھیں گے؟ مدمقابل کو کیسے وہ اپنے لئے خیر سمجھیں گے، بلکہ اسی لیے ہر مسلمان دوسرے مکتبہ فکر کو گمراہ اور بدعتی کہتے ہیں۔

بالکل اسی شخص کی طرح جو ایک پل پر کھڑا ہے اور آپ نے اسے بتا رکھا ہے کہ یہ پل ہی محفوظ مقام تک لے جانے والا ہے اس کے اس پار بھی موت ہے اور اس پار بھی موت ہے تو پھر وہ شخص کیسے ادھر دیکھے گا یا یوٹرن لینے کی کوشش کرے گا؟ نتیجے میں اس شخص میں جمود اور ٹھہراؤ آجائے گا اور وہ حق و باطل فوبیا کی وجہ سے وہیں ٹھہرے گا، چاہے اس کی راہنمائی کرنے والا غلط ہی کیوں نہ ہو۔ یہ شخص جو اس وقت اندر ہی اندر سے سہما اور ڈرا ہوا ہے، ہمارے سمجھانے پر ہمیں یہی کہے گا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کدھر جاؤں اتنے سارے لوگ ہیں اور ہر کسی کا مؤقف دوسرے سے الگ اور جدا ہے، ان میں سے صحیح ایک ہی ہے تو ہر کہنے والا یہی کہتا ہے کہ صرف یہی مؤقف آگ سے بچانے والا ہے دوسرا کوئی نہیں۔ لہذا یہ شخص ادھر ہی ٹھہرا رہے گا اور جمود اختیار کرلے گا، پھر اسی سے تقلید اور اندھی فالونگ پیدا ہوگی جس میں مسلمانوں کی اکثریت غرق ہے۔ ہم کافی عرصہ پہلے یہ سمجھ چکے ہیں کہ یہ خرابی کہاں سے پیدا ہوئی؟ جہالت ہی وہ اصل جڑ ہے تمام فکری اور نظریاتی خرابیوں کی، جس کی وجہ سے مسلمانوں میں جمود اور ٹھہراؤ آیا ہے۔ آپ اگر ان میں پڑھنے اور تحقیق کرنے کا شوق ڈالیں گے تو یقین جانئے کہ نوے فیصد مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے۔ جس طرح ہم دوسرے مذاہب کے لوگوں کو کہتے ہیں کہ تحقیق کریں اور جو حق معلوم ہو اسکو پہچانیں اسی طرح یہی قانون اسلام کے ذیلی فرقوں میں بھی اپلائے کیجئے، اور اسی چیز کا ہمیں حکم ہے۔ ہم صرف مبلغ اور داعی ہیں نہ کہ کسی مذہب کے خالق، تو داعی ہمیشہ دعوت دیتا ہے نہ کہ کسی کو جمود اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔

اور یقیناً جب یہ چیز عام ہوگی تو لوگوں میں موجود شدت پسندی اور مذہب کے بناء پر دشنام طرازی اور کفر و اسلام کے فتوے اور غارتگری ختم ہو جائے گی۔ جب اللہ تعالٰی نے ہم انسانوں کو قیامت تک اختیار دیا ہے کہ وہ جو بھی مؤقف اپنائیں اور کام کریں ان کو اختیار ہے، اسی طرح ہمیں بھی لوگوں کو یہ اختیار دینا ہوگا کہ وہ قرآن و سنت اپنے تئیں خود کسی مستند عالم دین کی نگرانی میں مطالعہ کریں اور پرکھیں کہ حقیقت کیا ہے؟

یہ وہ سرسری اختلاف اور نزاع ہے جس کی بنیاد پر مسلمانوں کو تنگ نظری اور اسلام کو شدت پسندی کا طعنہ دیا جاتا ہے لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام شدت پسندی کا اولین مخالف ہیں اور اسلام نے اپنے متبعین کو بھی شدت پسندی سے روکنے کیلئے مناسب احکامات جاری کئے ہیں۔ لیکن معاشرے میں شدت پسندی کا بڑھتا ہوا رجحان قطعاً بھی نیک شگون نہیں بلکہ یہ اسلام کے حقیقی روح کے بھی خلاف ہے۔

اختتام

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی