اسلام اور تبدیلی جنس (ٹرانس جینڈر)

 

اسلام اور ٹرانس جینڈر


ٹرانس جینڈر دورِ حاضر کی مغرب کے فرسودہ تہذیب کی کوکھ سے جنم لینی والی ایک نئی اصطلاح ہے، جو کہ بالکلیہ فطرت انسانی کے خلاف ہے۔ اور یہ اصطلاح ان افراد کی ہے جن کو یہ شکوہ اور احساس ہے کہ ان کی صنفی شناخت، چال ڈھال اور عادات و اطوار اس جنس سے وابستہ نہیں ہیں جس جنس کےلیے انھیں بوقت پیدائش تفویض کیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے وہ مرد ٹرانس جینڈر Transgender کہلائے گا جو پیدائشی تو کامل مرد تھا لیکن بعد میں اسے احساس ہوا کہ وہ مرد نہیں بلکہ ”عورت“ ہے۔ اور وہ عورت ٹرانس جینڈر کہلائی گی جو پیدائش کی وقت تو عورت تھی لیکن بعد میں اس کے احساس نے انھیں مطلع کیا کہ وہ عورت نہیں بلکہ مرد ہے۔ اس وقت پوری دنیا خصوصاً مغربی ممالک میں تبدیلی جنس کے بہت سے رپورٹس سامنے آئے ہیں، جن میں مرد سے عورت، اور عورت سے مرد بننے کے ذریعے تغیر لخلق اللہ اور اپنی ناپاک و نامراد جنسی تسکین کےلیے راہیں ہموار کرچکے ہیں۔ اور آئے روز یہ فطرت خداوندی سے متصادم جذبہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے اور جدید سائنس اس کی سہولت کار بن چکی ہے۔ اس کام کےلیے راہیں اتنے آسان بنادئیے گئے ہیں کہ اگر کوئی اپنی جنس بدلنا چاہتا ہے تو ماہرین ڈاکٹرز کے ذریعے باآسانی کراسکتا ہے۔

ماہرین ڈاکٹرز مرد کے اعضائے مخصوصہ جس میں کسی قسم کا کوئی نقص و خرابی موجود نہ ہو، آپریشن کے ذریعے نکالتا ہے اور اس کے جگہ عورت کے اندام مخصوصہ کے مشابہ ایک سوراخ بنادیتا ہے، اور اسی طرح تبدیلی جنس کے متمنی مرد کے جسم میں عورت کی ہارمونز داخل کیا جاتا ہے جس کے وجہ سے اس کے اندر عورتوں والی احساسات، چال ڈھال، باتوں میں نرمی، سینے میں ابھار چڑھاؤ آتا ہے۔ اور اسی طرح عورت کی سینے کے ابھارپن، رحم وغیرہ کو آپریشن کے ذریعے ختم کرتا ہے، اور اس کو مرد کے آلۂ تناسل کے طرح ایک مصنوعی آلہ لگادیتا ہے، جس سے اس میں جماع کی قدرت تو پیدا ہوجاتی ہے مگر مادۂ نطفہ کا اخراج یا حمل ٹھہرنے کا کوئی امکان نہیں۔ اور ہارمونز کے ذریعے عورت کی باتیں، چال ڈھال مردوں کی طرح ہوجاتی ہے اور اس ہارمونز ہی وجہ سے اس کی چہرے پر بال نکل آتے ہیں۔ اس مذکورہ باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرانس جینڈر کی بعد مرد، مرد اور عورت، عورت ہی رہتی ہے۔ کیونکہ عورت بننے والے مرد کےلیے یہ محال ہے کہ اس کو حیض آئے یا حمل ٹھہرے، اور اسی طرح مرد بننے والی عورت کےلیے یہ ممکن نہیں کہ اسکا مادۂ منویہ اس مصنوعی آلے کے ذریعے خارج ہوجائے اور حمل ٹھہرے۔

ٹرانس جینڈر پالیسی کے پیچھے جتنے بھی ادارے، تنظیمیں اور این جی اوز خصوصاً LGBT نامی فطرت سے عاری طبقہ کار فرما ہیں، وہ اپنے اس کھوکھلے اصطلاح کےلیے جو دلائل پیش کرتے ہیں ان میں من جملہ یہ باتیں شامل ہیں کہ ایک انسان پیدائشی تو مرد تھا لیکن بڑھتے بڑھتے اس کے داخلی دباؤ اور احساسات feelings نے اس کو مجبور کیا کہ میں تو مرد نہیں بلکہ عورت ہوں، اور اسی طرح عورت کو مرد بننے کا احساس پیدا ہوا، وہ لوگ کہتے ہیں کہ ایسے افراد مجبور محض ہیں اور وہ اپنے اندرونی دباؤ کے شکار ہے لہذا ان کو معذور قرار دیا جائے گا۔ یہ بات تو سراسر غلط ہے کیونکہ اگر اس کو تبدیلی جنس کےلیے جائز مان لیا جائے تو یہ اور کئی مشکلات اور فسادات کو پیدا کرنے کا سبب ہے، کیونکہ پھر تو کوئی بھی قاتل یا مرتکب جرم یہی کہے گا کہ وہ اس کام کےلیے داخلی دباؤ کا شکار اور مجبور محض تھا۔

دوسرے نمبر پر ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ضرورت ہے، اور اس کےلیے انھوں نے فقہ اسلامی سے جواز کا دلیل بھی نکالا اور ایک قاعدۂ فقہیہ کو بغیر محل کے استعمال کیا کہ ”اَلضَّرُورَاتُ تُبِیْحُ الْمَحْظُوْرَاتْ“ کہ ضرورت کی وقت تو حرام فعل جائز ہوسکتا ہے۔ قاعدہ ٹھیک ہے لیکن محل خطا ہے۔ جن لوگوں کو فقہ اسلامی کے قواعد جاننے کا علم ہو تو انھیں یہ علم بھی ہونا چاہیے کہ کسی بھی قاعدۂ فقہیہ کو استعمال کرنے سے پہلے اس کا محل و مکان جاننا لازمی ہے۔ اور مذکورہ صورت میں ٹرانس جینڈر کے ذریعے اگر ان افراد کی ضرورت بلکہ ایک ناجائز اور ناپاک طریقہ جنسی تسکین پوری ہوسکتی ہے تو دوسری طرف ان کی بے چینی اور ذہنی اضطراب پھر بھی ختم نہیں ہوتا جو کہ زیادہ تکلیف دہ ہے، اور فقہ اسلامی کا قاعدہ ہے کہ ایک ضرر کی وجہ سے دوسری ضرر کےلیے راہ ہموار نہیں کیا جائے گا۔ ”اَلضَّرَرُ لاَیُزَالُ بِالضَّرَرِ“ یعنی اگر ایک ضرر دور کرنے سے دوسرا ضرر جنم لیتا ہو تو اس ضرر کو ختم نہیں کیا جائے گا۔

تیسرے نمبر پر ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر تغیر لِخلقِ اللہ نہیں، بلکہ یہ ایک نفسیاتی مریض کا علاج ہے اور شریعت نے علاج معالجے میں وسعت ظرفی سے کام لیا ہے۔ یہ بالکل ناسمجھی اور بےوقوفی کی بات ہے کہ اگر ایک مرد، مرد کے اعضاء و آلات کے ساتھ پیدا ہو اور اسکے ان اعضاء کو ختم کیا جائے اور یہ تغیر نہ کہلایا جائے! دوسرے نمبر پر یہ مرض کا علاج نہیں بلکہ یہ تو بذاتِ خود بہت سے اور مفاسد و امراض کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے، اگر نفسیاتی مریض کے علاج کا ایسا بیہودہ اور فطرت خداوندی کے مخالف صورت علاج کو جائز قرار دیا جائے تو ایک زانی، شرابی اور چور بھی تو مریض ہیں تو کیا ان کاموں کےلیے بھی قانونی حیثیت دیا جائے گا؟

قارئین! مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر ایک انسان لاکھ مرتبہ مرد کے اعضاء کے ساتھ پیدا ہوجائے یا ایک عورت نسوانی اعضاء کے ساتھ پیدا ہوجائے، لیکن ان کے جنس کی تعین کرنے کے بارے میں نہ تو دیکھنے والے لوگ رائے دے سکتے ہیں اور نہ ہی ڈاکٹرز، جب تک کہ وہ خود بڑا نہ ہوجائے اور اس کے احساسات اور طبیعت سے واضح نہ ہوجائے کہ وہ مرد ہے یا عورت! الامان والحفیظ۔

سوال یہ ہے کہ احساسات ہیں کیا؟ اس کی حیثیت کیا ہے؟ اس کی نوعیت کیا ہے؟ کسی سلیم الفطرت انسان کو کبھی بھی یہ بیہودہ احساس اور خیال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ ان لوگوں کے اندر پیدا ہوگا جو پہلے ہی سے جنسی بے راہ روئی اور ہم جنس پرستی کے دلدل میں پھنسے ہو۔

اور پھر مغرب کی دیوانگی نے اپنے اس کھوکھلے ایجنڈے کو انسانی حقوق کا جامہ بھی پہنایا۔ تو سوال یہ ہے کہ انسانی حقوق کا وسیع دائرۂ عمل اتنا چھوٹا ہوگیا کہ سینکڑوں اہم مسائل کو چھوڑ کر اس بیہودہ اور خلاف فطرت فعل کو توجہ دی جائے؟

کوئی نفسیاتی مرض نہیں ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اچھی تربیت کا فقدان، فساد سے بھرا ماحولیاتی نظام، جنسی خواہشات کو بھڑکانے والی اشیاء کی کثرت اور فراہمی، فطرت انسانی کے خلاف جنسی تسکین کا حصول اور اس میں حد سے تجاوز، ہی وہ اسباب ہیں جس نے انسانیت کو آج یہاں تک پہنچا دیا کہ وہ نہ صرف اپنی جنسی تسکین کےلیے بے راہ روئی اختیار کرنا چاہتی ہے بلکہ اپنے وجود ہی کو بدلنے پر آمادہ ہے۔ استغفراللہ

ملک خداداد پاکستان میں بھی اس غیرملکی اور مغربی ایجنڈے پر باقاعدہ عمل 2018ء میں شروع ہوا، اور چونکہ ایسے ایجنڈوں کے پیچھے تو این جی اوز کارفرما ہوتی ہیں، جو غیرملکی ایجنڈے لے کر چلتے ہیں، تو بظاہر اس قانون کو خواجہ سراؤں کی حقوق کا قانون قرار دیا گیا اور یوں اس قانون کے حقیقت مخفی ہوگئی اور یہ قانون خواجہ سراؤں کی حقوق کے بجائے ہم جنس پرستوں کےلیے سہولت بنی۔

اس قانون سے مذکورہ مفاسد کے ساتھ ساتھ معاشرتی بگاڑ و فساد بھی برپا ہوگا، کیونکہ مسئلہ توریث میں اجناس مختلف کرنے کے قانونی اختیار و سہولت کی وجہ سے کتنے لوگوں کا حصہ ہڑپ ہوگا؟ اور یوں خاندانی فسادات اور جھگڑوں کا ذمہ دار کون ہوگا؟

بظاہر تو یہ قانون انسانی حقوق کا علمبردار قرار دیا گیا لیکن اس کے پیچھے Lesbians, Gays, Bisexual and Transgender کا عالمی فطرت اور اسلام بلکہ تقریباً تمام مذاہب کا مخالف ایجنڈا کارفرما ہے۔

کوئی بھی نفسیاتی مرض اور داخلی دباؤ کا شکار نہیں ہے بلکہ یہ ہم جنس پرستی کے عادی اور بے راہ رو افراد کےلیے فطرت سے متصادم، دینی اور دنیوی فسادات پر مشتمل، فطرت و طبیعت سے مکروہ ایک سہولت اور ناپاک طریقے سے جنسی تسکین کی راہ ہموار کرنے کا ایجنڈا ہے جس کے پیچھے عالمی ادارے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ جب سائنس کی اتنی پاور ہے کہ وہ ہارمونز کے ذریعے ایک انسان کے جنس کو بدل سکتا ہے تو جو ہزاروں خواجہ سرا ہیں جن کے جنسی تشخص مشکوک ہے، انکے جنسی تعین کےلیے اس کو کیوں استعمال میں نہیں لایا جاتا؟ لیکن ٹرانس جینڈر کا اصل مقصد ان افراد کی حقوق کی بات نہیں جو پیدائشی طور مرد و عورت کے مشترک اعضاء رکھتے ہیں، بلکہ یہ دنیا کے اصلاً و مکمل مردوں اور عورتوں کے جنسی تشخص تغیر کرنے کا ایجنڈا ہے۔ اور مغرب تو ہے اسمیں ڈوبا، لیکن کچھ ہمارے مغرب سے متاثر نوجواں اور سیکولر طبقہ جو مطلق آزادی اور خواہش کا دلداہ ہے وہ بھی اس ایجنڈے کو ترقی قرار دے رہے ہیں۔

اب ٹرانس جینڈر کسی ایک مذہب و ملک یا کسی ایک قوم و طبقے کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک ایسا ایجنڈا ہے جو عالم انسانیت چاہے مسلم ہو یا غیرمسلم، گورے ہو یا کالے، کی فطرت کے خلاف ہے۔ اور اب اس کی روک تھام بھی کسی خاص طبقے اور مذہب کی ذمہ داری نہیں بلکہ تمام عالم انسانیت کی مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائے اور اس کے روک تھام کےلیے متحد ہوجائے۔ اور اس کے خلاف جتنے بھی لوگ آواز اٹھا رہے ہیں ان کے کردار کو سراہنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو اس بیہودہ فعل سے بچائے اور اس کے روک تھام میں حتی الوسع آواز اٹھانے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی