ہزار سالہ قدیم مسجد محمود غزنوی کی سیر

مسجد محمود غزنوی
وادی سوات سیر و سیاحت کے حوالے سے دنیائے سیاحت میں غیر معمولی شہرت کا حامل خطہ ہے، یہاں کے حسن و جمال، رعنائی اور دلکشی قدرت کا تحفہ ہے، یہاں کے دلکشی اور زیبائش کی وجہ سے ہر سیاح اس وادی کا عاشق بن جاتا ہے۔ پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد سے شمال مشرقی جانب 254 کلومیٹر کے فاصلے، اور صوبائی دارالخلافہ پشاور سے 170 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ خطہ قدرت کے کارخانۂ تخلیق کا باکمال شاہکار اور دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز سیاحت ہے۔ ایک مردم شماری کے مطابق سوات کی آبادی بارہ لاکھ ستاون ہزار چھ سو دو (1257602) ہے، یہ خطہ تین ہزار سات سو چھپن (3756) مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہے۔ اس خطے کے شمالی جانب میں چترال، جنوب میں بونیر، مشرق میں شانگلہ اور مغرب میں دیر اور ملاکنڈ کے اضلاع پڑے ہیں۔

قدرت نے اس خطے کو جو حسن و زبائش ودیعت دی ہے وہ دنیا میں کہیں اور بہت کم ملتی ہے، یہاں فلک بوس چوٹیاں، برف کے چادر اوڑھے پہاڑیاں، پھلوں سے لدے درخت، پھولوں سے مزین سرسبز باغات، صاف و شفاف اور میٹھے پانی کے چشمے، ندیاں اور ابشاریں قدرت کے بےمثال خلاقیت کا واضح ثبوت ہیں۔ وادی سوات کے باشندے بھی سوات کے طرح ظاہری و باطنی خوبصورتی، حسن اور خوبیوں سے بہرہ ور ہیں، یہاں کے لوگ مذہب و روایت پسند، ملنسار، مہمان نواز ہیں۔ مہمان نوازی، اجنبی کی راہنمائی اور خواتین کا احترام اس دلکش خطے کا ثقافتی ورثہ ہے، سوات کا قومی اور عوامی لباس شلوار اور قمیص ہے۔
وادی سوات نے صدیوں کی تاریخ کو سمیٹ لیا ہے، معلوم تاریخ کے مطابق اس خطے کے تاریخ ڈھائی ہزار (2500) سال قدیم ہے، یہ خطہ مختلف اقوام کا وطن و مسکن رہا ہے۔ قدیم زمانے میں اس خطے میں بدھ مت کا راج تھا۔ یہ ضلع وسط ایشیاء کی تاریخ میں علمِ بشریات اور آثارِ قدیمہ کےلیے مشہور ہے۔ بدھ مت تہذیب و تمدن کے زمانے میں سوات کو بہت شہرت حا صل تھی اور لوگ اسے ادھیانہ یعنی باغ کے نام سے پکارتے تھے۔ بدھ مت تہذیب کے دوران یہ خطہ ریاضت و عبادت کےلیے بہت مشہور تھا کیونکہ سوات ایک پرفضا، پرسکون اور حسین و دلکش خطہ ہے۔ اس وادی کے دریا کے صاف و شفاف پانی کے کناروں پر “رگ وید” کے اشلوک لکھے گئے۔ رام چندرجی، بن باس اپنے صبرآزما دن رات اس پہاڑوں میں گزارتے تھے۔  بدھ مت عقیدے کے مطابق ”گوتم بدھ“ کا دوسرا جنم بھی اس مقام پر ہوا ہے۔ اس پرسکون خطے کے پہاڑوں میں دور دراز سے آنے والے بدھی لوگ روحانی اسفار کرتے اور ”گیان دھیان“ کے مختلف سیڑھیوں پر چڑھتے تھے۔ اس خطے پر بہت قدیم سے بدھ مت کا دور تھا اور راجاگیرا اس زنجیر کی آخری کڑی ہے۔ راجہ گیرا سے پہلے اس خطے پر جن بدھ مت بادشاہوں کی دور حکومت گزری ہے، ان میں راجہ کنشک، راجہ رام، راجہ ہوڈی کے نام شامل ہیں۔
راجاگیرا کا شاہی تخت و قلعہ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے مغربی جانب علاقہ اوڈیگرام کے بائیں جانب غازی باباؒ مقبرہ سے ذرا آگے پہاڑی پر واقع ہے۔ راجاگیرا کا یہ قلعہ اپنی خوبصورتی، مکان وقوع، بناؤٹ کے لحاظ سے شاید وادئ سوات کے مختلف تاریخی اسٹوپوں میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ قلعہ سے دور دراز علاقے، اوڈیگرام کا ذیلی علاقہ وغیرہ بالکل واضح اور خوبصورت دکھائی دیتے ہیں جو ناظرین اور سیاحوں کو لطف اندوز کررہے ہیں۔ دریائے سوات بھی نمایاں نظر آرہا ہے اور ایک خاص تکنیک استعمال میں لاتے ہوئے مٹی کے پائپوں کے ذریعے دریائے سوات کا خوبصورت صاف و شفاف پانی اس پہاڑ کے چوٹی پر واقع قلعے تک پہنچایا جاتا تھا۔
مسلم حکمران امیر ناصر الدین سبکتگین جو سلطنت غزنویہ کے دوسرے تخت نشین تھے، آپ کے تین بیٹے تھے، محمود، اسماعیل اور نصر۔ ان تینوں میں غزنوی سلطنت کا سہرا جس کے سر جچتا ہے وہ محمود یعنی سلطان محمود غزنویؒ ہیں۔ تاریخ افغانستان کے مطابق سلطان محمود غزنوی کی ولادت 30 محرم  ؁357ھ بمطابق 29 اگست  ؁977ء کی شب ہوئی تھی۔ سلطان محمودغزنوی  ؁388ھ میں 31 سال کی عمر میں سلطنت غزنویہ کے تخت پر جلوہ افروز ہوئے، مسلم حکمرانوں میں محمود غزنوی پہلے حکمران تھے جنھوں نے سلطان کا لقب اختیار کیا۔ دنیا بھر کے مؤرخین و سوانح نگار اس بات پر متفق ہیں کہ محمود غزنوی دنیا کے بڑے فاتحین میں سے ایک تھے جنھوں نے بہت قلیل مدت میں کثیر فتوحات و حکومتیں حاصل کیں۔ اسلام کی وہ کرنیں جو جزیرۀ عرب سے چار دانگ عالم پھیل گئیں، سلطان غزنوی کے دور میں وہ کرنیں سوات کے طرف بھی پھیل گئیں۔ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ کے لگ بھگ حملے کیے، ان میں انھوں ایک حملہ اپنے جرنیل پیرخوشحال کے ذریعے راجہ گیرا کے قلعے پر بھی کیا تھا، جنھوں نے تین دن تک قلعے کو پانی کی ترسیل روک دی تھی بعد میں راجا گیرا کے ساتھ ٹکر لی اور قلعے کو اپنے زیرنگیں کیا۔ پیرخوشحال اس لڑائی میں شہید ہوئے تھے اور یہیں علاقہ اوڈیگرام میں ہی مدفون ہیں۔ اس قلعے کے قریب بدھ مت کی عبادت گاہ بھی تھی جو راجا گیرا ہی نے بنائی تھی، اس کی جگہ مسجد تعمیر کرنے کےلیے سلطان محمودغزنوی کے بھتیجے حاکم منصور آئے تھے۔ سن 1984ء میں مسجد ہذا کے احاطے سے ایک کتبہ دریافت ہوا تھا جس پر لکھا تھا کہ سلطان محمودغزنویؒ نے اپنے بھتیجے کو اس مسجد کے تعمیر کا حکم دیا تھا۔ حاکم منصور نے اپنے سپہ سالار نوشگین کے زیرنگرانی سن 440ھ بمطابق سن 49-1048ء میں یہ مسجد تعمیر کی۔ کتبے کی دریافت کی بعد سن 1985ء میں اٹلی کے آثارِقدیمہ کے ماہرین نے اس جگہ کی کھدائی شروع کی اور سلطان محمودغزنویؒ مسجد کو دریافت کیا تھا۔

مسجد کا ایک منظر

مسجد کا فضائی منظر

مسجد کا ایک اور منظر

اس دور میں بنائی گئی مسجد کا ڈھانچہ، عمدہ ڈیزائن کی بہترین مثال پیش کرتا ہے۔ مسجد کی صحن کے درمیان میں پانی کا حوض وضو کیلئے بنایا گیا تھا، مسجد کے ہال میں محراب نمایاں نظر آرہی ہے۔ مسجد کے دائیں جانب ایک راستہ رہائشی کمروں کی طرف جاتا ہے، اس زمانے کے علوم نبویﷺ سیکھنے والے طلباء اور اساتذہ اسی کمروں میں رہائش پذیر تھے، کیونکہ یہ مسجد اس زمانے میں بطور دینی مدرسہ بھی استعمال ہوا کرتی تھی اسلئے طلبہ اور اساتذہ کے رہائش کے خاطر یہ کمرے بنائے گئے تھے۔ قبلہ رخ ہو کے بائیں جانب ایک کچن بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ جبکہ مسجد کی طرف جانے والے راستے میں راجاگیرا کی بنائی ہوئی بدھ مت کی عبادت گاہ بھی موجود ہے، جہاں کسی زمانے میں بدھی لوگ اپنی مذہبی رسوم ادا کرتے تھے۔ مسجد کا دروازہ تقربیا چار فٹ کا ہے جسے سیاحوں کےلیے کھولا جاتا ہے۔


مسجد کی حوض کا ایک منظر

مسجد کی محراب

رہائشی کمرے

کمروں کی طرف جانے والا راستہ

مسجد کی طرف جانے والا راستہ

مسجد کا دروازہ

مسجد کی دیواریں 30 فٹ بلند ہیں۔ مسجد سے بارش یا پھر وضو کے استعمال شدہ پانی کو نکالنے کا طریقہ اور اس کےلیے بنائی گئی نالی بھی اس دور کی تعمیراتی فن کا ایک شاہکار ہے، جبکہ پانی کے سپلائی کی نالی بھی ایک عجیب طرز کی بنائی گئی ہے۔ مسجد میں جگہ جگہ چھوٹے کتبے لگائے گئے ہیں جس سے نئے آنے والوں کو کافی رہنمائی ملتی ہے۔ مسجد کی چھت مرورِ زمانہ کے وجہ سے منہدم ہوچکی ہے تا ہم چھت ہونے کی وقت جہاں ستون تھے وہیں پر نشاندہی کےلیے چھوٹے چھوٹے کتبے لگائے گئے ہیں، یہ مسجد شمالی پاکستان کی سب سے قدیم مسجد ہے۔


مسجد کی بیرونی دیوار کا منظر

دیوار کا ایک اور منظر، جو کسی قلعے کی صورت پیش کررہی ہے

پانی کا سپلائی لائن

ستون کی نشاندہی کرنے والا کتبہ

بارش اور وضو کی استعمال شدہ پانی کی اخراج کی نالی

مسجد کے پاس محکمہء آثار قدیمہ نے مسجد کی گارڈ کےلیے ایک کمرہ بھی بنایا ہے جو مسجد کی پہرہ دینے کے ساتھ نو واردوں کی رہنمائی بھی کرتے ہیں، اور مسجد میں اندر جانے والوں کےلیے مسجد کا دروازہ کھولتے ہیں۔ اور زائرین کو یہ ہدایت دیتے ہیں کہ آپ مسجد کے احاطے میں کسی بھی چیز کو ہاتھ نہ لگائیں! کیونکہ ہزار سال پہلے جو چیز جہاں رکھی گئی ہے اسے چھونے سے اس کی کشش میں کمی آئے گی۔

(یہ بھی پڑھیں☜… پہاڑوں کا ایک ناقابل فراموش سفر)
اس تاریخی مسجد کی زیارت کےلیے سیاح بہت دور دور سے آتے ہیں اور اس پرانی مسجد کے پرانی تاریخ اور اس کے ایمان افروز نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

بشکریہ: روزنامہ ”چاند“ سوات، پیر، 5 دسمبر 2022ء 

(ختم شد)
حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی