در حقیقت روٹی کھا گئی ہم کو

در حقیقت روٹی کھا گئی ہم کو


یہ بات تقریباً سبھی لوگوں کے علم میں ہوگی کہ روٹی، کپڑا، مکان ہر باشندۀ ریاست کا بنیادی حق ہے اور حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ یہ حق مستحق کو بلا لحاظ رنگ و نسل، بلا تفریق مذہب و مسلک فراہم کرے۔ مختلف حکومتیں اپنی اسی ذمہ داری کو نبھانے کے لیے مختلف اقدامات کررہی ہے، اور عوام کو سہولت کے ساتھ ضروریات پورا کرنے کا موقع دیتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کونسی حکومت اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا کرچکی ہے اور کونسی نہیں، اور کونسی اس سلسلے میں خاطر خواہ اقدامات کررہی ہے۔ عصر حاضر میں مہنگائی کے لہر سے بہت سے ممالک دوچار ہیں جن میں پاکستان کا نام بھی سر فہرست ہے، جہاں آئے روز مہنگائی اور گرانفروشی کی شرح اوپر جارہی ہے، مہنگائی کی حالیہ طوفانی لہر نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، لوگ فاقوں پہ مجبور ہیں، غریب تو غریب متوسط طبقہ بھی ان حالات کو برداشت نہیں کرسکتا، اگر کوئی گرانفروشی کے خلاف آواز اٹھائے تو اس پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ اشیائے خورد و نوش اور دیگر اشیائے ضرورت کے قیمتوں میں ظالمانہ اضافے کے وجہ سے ایک عام مزدور اسکا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا، لیکن ہر کوئی مجبوری کے سبب حتی الوسع کوشش میں ہے کہ وہ اپنا اور اپنے پیاروں کے پیٹ پالنے کے لیے کوئی اقدام کرے۔ حکومت پاکستان نے عوام کے لیے وزیراعظم میاں شہباز شریف کے حکم پر رمضان پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت عوام کو مفت آٹا ملے گا، اور اس حکمنامے پر باقاعده عمل بھی شروع کیا گیا ہے۔ لیکن حکومت نے اس کے لیے کوئی پلان نہیں بنایا کہ یہ آٹا کس طریقہ کار سے تقسیم کیا جائے گا؟ اور کون کون اس پیکیج سے مستفید ہونگے؟ 

اور اسی لیے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان کے دیگر بہت سی منصوبوں کی طرح یہ منصوبہ بھی بدنظمی اور افراتفری کا شکار ہے۔ جہاں بھی آٹا فراہم کرنے کی سہولت ہے وہاں ایک ہلچل مچا ہوا ہے، آٹے کے غیرمنصفانہ تقسیم پر عوام میں بھگدڑ شروع ہے، شہریوں نے آٹے کے ٹرکوں پر ایک ہنگامہ آرائی برپا کی ہے، ہر کوئی اپنا اور اہل و عیال کا پیٹ پالنے کے لیے مسابقہ میں ہے۔ مہنگائی کے آگ میں جھلسے شہری سارا دن آٹا حاصل کرنے کے لیے دھکے کھا رہے ہیں، کیونکہ پیٹ کی ضرورت تو کسی ایک طبقے کا مسئلہ نہیں اور نہ یہ صرف غریب باشندوں کی ضرورت ہے۔ ایک فرد کے پیچھے اہل و عیال بھوک سے نڈھال رہے ہوتے ہیں تو اس کے پاس یہ سب برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ سارا دن جھگڑوں پہ جھگڑے ہوتے ہیں، کئی قیمتی زندگیاں بھی فنا ہوئے، جس روٹی کے لیے قیمتی جان کھونا پڑے وہ مفت نہیں بلکہ بہت مہنگی ہے۔ 

بظاہر تو یہ پیکیج غریب اور کمزور شہریوں کے لیے ہے لیکن کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ اپنے مستحقوں کو پہنچ رہا ہے، کیونکہ غریب تو غریب ساتھ میں گزار حال طبقہ بھی اس پیکیج سے بھرپور مستفید ہونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ نظم و نسق نہ ہونے کے وجہ سے مضبوط اور طاقتور لوگ آسانی سے آٹے کے دو تین تھیلے حاصل کرکے خوشی سے واپس جاتے ہیں، لیکن کمزور افراد اور خواتین سارا دن دھکے پہ دھکے کھا کر مایوس گھر لوٹتے ہیں۔ آٹے کے لائنوں میں بدنظمی کی صورتحال یہ ہے کہ رمضان کے مبارک مہینے میں ہر روز جھگڑے ہوتے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر کئی قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ نظم و نسق کے عدم موجودگی کے وجہ سے صورتحال انتہائی دل خراش ہے۔

در اصل انسانی ضروریات میں آٹا انسان کی وہ بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔ اگر روٹی ہو تو کوئی اس کو سالن، چٹنی، اچار حتی کہ سادہ پانی کے ساتھ بھی کھا سکتا ہے، لیکن اگر آٹا نہ ہو تو سالن وغیرہ اکیلے بھوک کا سامان مهیا نہیں کرسکتے۔

بدقسمتی سے پاکستانی حکومت آٹے کے تقسیم کے اہم مسئلے کے حل میں ناکامی یا لاپروائی کا شکار ہوئی، اور بجائے اس کے کہ کوئی بہتر نظم و نسق کے ذریعے یہ آٹا مستحق افراد میں تقسیم کرتی تا کہ ان کی عزت نفس بھی محفوظ رہتی اور ضرورت بھی پوری ہوجاتی۔ لیکن معاملہ برعکس ہوا اور حکومتی نظم نہ ہونے کے سبب آٹے کے گاڑیوں پر عوام کا سیلاب امڈ آیا، کیا مزدور و کیا ملازم! کیا فقیر و کیا آسودہ حال! کیا مرد و کیا عورت! سب کے سب دوڑ پڑے، اور آٹے کے تھیلی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں نظر آئے۔ پاکستان کا حکمران اور بیوروکریٹ طبقہ اطمینان و سکون کے ساتھ اپنے حویلیوں میں آرام فرما ہے، لیکن ریاست کے غریب مائیں آٹے کے لائنوں میں کھلے آسماں کے تحت بارش کے قطروں میں بھیگ رہی ہیں، ریاست کا مزدور طبقہ اپنے حق دار ہونے یا نہ ہونے کےلیے لائنوں میں کھڑا انتظار کر رہا ہے، اور دن کے اختتام پر اسے نا امید لوٹنا پڑتا ہے۔ اور مجال ہے کہ کسی حکومتی اہلکار کی آنکھ کھلے اور اس طرف توجہ کرے، اور کوئی نظم و نسق وضع کرے! وزیر اعظم کی طرف سے اس کام کو مزید تیز کرنے کی ہدایت تو دی جاتی ہے لیکن نظم و ضبط کے لیے کوئی اقدام نہیں کی جاتی۔ آٹا سنٹر میں جو ذمہ داران بیٹھے ہیں انکی بھی اپنی من مانی ہے، جسے چاہے پہلے آٹا دے اور جسے چاہے اسے آخر میں کھڑا کردیتے ہیں۔ اگر آپ آٹا سنٹر کے ذمہ داران کے رشتہ داروں اور تعلق داروں سے ہے تو آپ خوش بخت ہے کیونکہ وہ آپ کو پہلے آٹا دیتے ہیں اگر چہ آپ تاخیر سے کیوں نہ آئے ہو۔ لیکن اگر سنٹر کے ذمہ داران سے آپ کا کوئی تعلق نہیں، آپ ایک عام شہری ہے تو پھر آپ کا خدا سہارا ہو کیونکہ پھر آپ کو کوئی بھی توجہ نہیں دے گا، لائن میں کھڑے تھکا دینے والے انتظار کے بعد جب آپ کی باری آئے گی تو آپ کو نا اہل یا آٹا ختم ہونے کا کہہ کر واپس کیا جاتا ہے۔ یہ فقط میرے جذبات نہیں بلکہ آنکھوں دیکھا حال ہے، اور یہی حال ہر آٹا سنٹر پر آپ دیکھیں گے، یہ ریاست کا اس اہم منصوبے کے لیے نظم و ضبط نہ ہونے کا وجہ ہے۔ پاکستان میں مردم شماری، پولیو، یا دیگر منصوبوں کے لیے گھر گھر گھومنے والے اہلکار بمع سیکیورٹی تو موجود ہیں لیکن آٹے کے تقسیم کے اس اہم پیکیج کے لیے حکومت کے پاس قحط الرجال ہے، علاج وغیرہ کے بغیر بھی انسان کے زندہ رہنے کی امید ہے لیکن روٹی کے بغیر انسان بالاخر مر ہی جاتا ہے۔ لیکن افسوس اس اہم منصوبے کی نظم و ضبط میں حکومت ناکام اور لاپرواہ رہی۔ اگر اب بھی حکومت نے اس پیکیج کے لیے کوئی نظم وضع نہیں کی تو آٹے کے غیر منصفانہ تقسیم کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا، اور اس سے وہ لوگ مستفید ہونگے جو پہلے ہی سے گزار حال اور آسودہ حال ہیں، اور مستحق اور حق دار لوگ محروم رہیں گے اور حکومت کے اس افراتفری کے شکار منصوبے کے وجہ سے ذلیل و خوار ہو کر مریں گے اور انکی لاشیں بزبان حال گویا ہوگی؂

بظاہر روٹی تو ہم نے کھانی تھی

در حقیقت روٹی کھا گئی ہم کو


بشکریہ: باغی ٹی وی

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی