معاشرے میں بڑھتا ہوا رجحانِ قتل



ایک معاشرے اور سماج کی مثال ایک گھرانے کی ہوتی ہے۔ جس طرح کسی بھی گھرانے میں معمولی سی اختلاف یا جھگڑا گھر کے چین و سکون کو تانا بانا کرتا ہے، اسی طرح معاشرے میں پھیلنے والے جگھڑے، فسادات اور جرائم سماج کے امن و آشتی کو ختم کرتے ہیں، اور معاشرے میں خوف و ہراس، بے چینی اور ناامیدی پھیلاتے ہیں۔ ہر سماج میں پائے جانے والے جرائم کے شکلیں مختلف ضرور ہوتی ہیں لیکن اس سے منتج ہونے والے کیفیات ایک جیسے ڈراؤنے اور سوہانِ روح ہوتی ہیں۔ ان جرائم و فسادات میں ایک جرم ”قتل“ جیسا بھیانک چیز بھی ہے جو حاضر معاشرے میں ایک معمولی سی بات تصور کی جاتی ہے، جس کا اقدام کوئی بھی آسانی سے بلا جھجک کے کرتا ہے، جبکہ در حقیقت اس سے پیدا ہونے والے نتائج سب کے لیے ایک جیسے پریشان کن ہوتے ہیں۔ 

موجودہ دور میں معاشرتی قتل کا رجحان بہت بڑھتا جارہا ہے اور وہ ایک کلچر کی صورت اختیار کرچکا ہے، اور اس کے روک تھام کے لیے کیے جانے والے تمام تر کوششیں اور جدوجہد رائیگاں ہیں۔ ایک نوعمر لڑکے سے لے کر ایک پختہ عقل کے آدمی تک ہر کوئی قتل کو بچوں کا کھیل اور ایک فخریہ کام سمجھ کر اس کا ارتکاب کرتا ہے، اور اس سے منتج ہونے والے نتائج کو بصد افسوس بھگتا ہے۔ ہم نے آپسی، گھریلوں اور معاشرتی غلط فہمیوں، اختلافات و تنازعات کو سنجیدگی اور معاملہ فہمی کے ساتھ حل کرنے کے بجائے اس کے حل کا واحد راستہ قتل جیسا بھیانک چیز ٹھہرایا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس قوم کے ساتھ ماضی میں وقوع پذیر واقعات سے لے کر مستقبل میں پیش آنے والے سارے واقعات و اختلافات کے حل کا ایک نسخۂ کیمیا موجود ہے وہ قوم ایک بھیانک چیز کو اپنے مسائل کا آخری حل قرار دیتے ہیں، جس چیز میں سوائے بے چینی اور پریشانی کے کچھ بھی نہیں۔ ثبوت کے طور پر حالیہ وارد شدہ قتل کے وہ چند دلخراش واقعات ہیں جس کے وقوع سے ہر ذی عقل و ذی شعور حیران و پریشان ہے۔ حالیہ ماضی قریب کے واقعات میں دیر کے علاقے میں ایک نوعمر لڑکے کا اپنے والدین کو قتل کرنے کا سانحہ ہو یا اس کے بعد پیش آنے والے دوستوں کے جامہ میں قاتلوں، یا بیوی شوہر کے روپ میں قاتلوں، یا زمین و جائیداد کے تنازعات میں قتل و قتال کے بے شمار حادثے ہو۔ در اصل یہ ہمارے رویوں پر ایک سوالیہ نشان ہے، اور بزبان حال ہم سے سوال کر رہے ہیں کہ جس قوم نے دنیا کے دوسری قوموں کے لیے گفتار و کردار، امن و اخوت، عدل و انصاف کا معیار بننا تھا آخر وہ قوم تباہی کے اس نہج پر کیوں پہنچ چکی ہے کہ وہ اتنا مایوس ہے کہ اس قبیح فعل کا ارتکاب کرکے معاشرے کو بھی مایوس کرتی ہے؟ 

ہمارے معاشرے میں قتل کا بازار اس طرح گرم ہے کہ ان کرداروں سے بھی ہم اس قبیح فعل کے ارتکاب کا سنتے ہیں جس کردار کے بارے میں یہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ مثلاً آپ نے سنا ہوگا کہ فلان بندہ چند دن سے غائب تھا، پھر اس کی لاش ملی۔ جب انویسٹی گیشن ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس کے آخری ملاقات اپنے جگری دوستوں سے ہوئی تھی۔ یا پھر بیوی نے چال چلا کے شوہر کو قتل کروایا یا شوہر نے بیوی کو غیرت کے نام پہ قتل کیا ایسے واقعات تو بے شمار ہیں۔

معاشرے میں بڑھتے ہوئے رجحان قتل کے وجوہات میں سرفہرست وجہ اس قانون قصاص سے روگردانی اور اس کو مبنی برظلم قرار دینا ہے جو قانون قرآن مجید میں اللہ سبحانہ و تعالی نے امتوں کے لیے قتل کے معاملے میں بیان کیا ہے، کہ قاتل مقتول کے بدلے قتل کیا جائے گا الاّ یہ کہ مقتول کے ورثاء اسے معاف کرکے صلح کریں۔ اب لبرل اور مغرب زدہ دنیا اگر چہ اس کو ظلم کہتی ہے لیکن اللہﷻ نے جو قانون بندوں کے لیے وضع کی ہے وہ ہی اس رجحان قتل کا سد باب ہوسکتا ہے، اور معاشرے میں امن و آشتی کا سامان کرسکتا ہے، کیونکہ جو بھی بندہ قتل کرنے کا سوچے گا تو اس کے سامنے اپنی قتل مدنظر ہوگی۔ ابھی چند دن پہلے مجھے دوستوں کے ہمراہ باجوڑ کے ایک دوست کے ہاں جانا ہوا، تو وہاں باتوں میں قتل کی بحث چلی۔ تو اس دوست نے بتایا کہ جب باجوڑ ضلع میں منتقل نہیں ہوا تھا اور اس کی حیثیت ایجنسی کی تھی تو یہاں قتل و قتال اتنی زیادہ نہ تھی کیونکہ جو بھی قتل کرتا تو بدلے میں اپنی قتل کو مدنظر رکھتا۔ لیکن جب سے باجوڑ ایجنسی سے ضلع بنا ہے اور تمام تر اختیارات حکومت کے قبضے میں آئی ہیں تب سے آئے روز نامعلوم فائرنگ سے ایک لاش گری ہوئی ملتی ہے۔ 

موجودہ دور میں مغرب کے پیروی میں قصاص کو تو ہم نے بھی ظلم کا قانون قرار دیا ہے لیکن اس کے مقابل ناحق قتل کو روکنے کے لیے ہماری اپنی حکومتی اور نہ عوامی سطح پر کوئی ایسی مضبوط اور متیقن پالیسی موجود ہے جو اس سلسلے کو روک سکے۔ پولیس اگر ایسے موقع پر کاروائی کرکے قاتل کو پکڑ کر حوالات میں بند بھی کرتی ہے لیکن ایک مضبوط حل نہ ہونے کی وجہ سے قاتل اور مقتول کے خاندانوں میں صلح نہیں ہو پاتی جس کے وجہ سے یہ سلسلہ پھر بھی جاری رہتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ پولیس نے کسی قاتل کو گرفتا کیا ہے لیکن  کچھ عرصہ بعد جب وہ باہر آتا ہے تو پھر سے دونوں خاندانوں میں لڑائی کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر اس فعل کے روکنے کے لیے اقدامات کیے جائے، اگر قانون قصاص کا نفاذ پھر بھی ممکن نہ ہو تو تعزیرات کے تحت اس کے مرتکب کے لیے عملی سخت سزا اور بھاری جرمانے کا اجراء کیا جائے تا کہ اس فعل کے طرف پھر کسی کی توجہ نہ جائے۔ اگر قتل کلچر کے روک تھام کے لیے عملی اقدامات نہ ہوئے تو مستقبل میں ہم بہت دلخراش نتائج کو بھگتیں گے۔


بشکریہ: روزنامہ ”چاند“ سوات، ہفتہ، 6 مئی 2023

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی