نوجوان نسل، معمار قوم


تصویر: گوگل



قوت، حوصلہ، عزم اور جفاکشی کا دوسرا نام جوانی ہے، نوجوان نسل کی اہمیت و افادیت سے کوئی چارۂ کار نہیں، کسی بھی قوم کی کامیابی و ناکامی، ترقی و تنزلی، فتح و شکست میں نوجوان نسل کا اہم کردار ہوتا ہے۔ نوجوان نسل کی اہمیت دنیا کی ہر قوم کے ہاں مسلم ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے ہاں بھی نوجوانوں کی اہمیت و افادیت مسلم رہی ہے اور اس بابت مفکرین و دانشوروں سمیت اسلام نے بھی رہنمائی کی ہے۔ حضور اکرمﷺ نے نوجوانوں کی اہمیت و تربیت کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: ” میں تمہیں نوجوانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، کیونکہ وہ نرم دل ہیں، بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، پس نوجوانوں نے میرے ساتھ اتحاد کیا اور بوڑھے مجھ سے متفق نہیں تھے۔ "

نوجوان طبقہ فطرتاً نرم دل ہوتا ہے، کوئی بھی بات، فکر یا نظریہ ان پر جلد اثر انداز ہوتا ہے، اور نوجوان اس کو مضبوطی سے قبول بھی کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ بات یا فکر غلط بھی ہوسکتا ہے اور درست بھی، لیکن نوجوانوں کو ابتدا میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے، جو ان کا نصب العین قرار دیا جاتا ہے، تو پھر وہ اس کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں اور اس کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوسکتے۔ اب ظاہر ہے کہ اس نسل کی صحیح اور درست تربیت کی جائے، انھیں درست فکر دی جائے تو پھر یہ کسی بھی قوم کے کامیاب مستقبل کی ضمانت ہے۔ لیکن اگر انھیں اپنی خودی کو پہچاننے کا موقع نہ دیا جائے، انھیں لغویات میں مشغول رکھا جائے، انھیں علم و کتاب سے دور رکھا جائے، انھیں خود پسندی، تن آسانی میں مبتلا چھوڑا جائے تو ظاہر ہے اس قوم کا زوال ہی مقدر ہے۔ جوانی کا دور انسان کی زندگی کا ”قوی ترین“ دور ہوتا ہے اس عمر میں انسان کے لیے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوتا، اس عمر میں اگر انسان صحیح سمت اختیار کرے تو کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر عمر کی اس منزل میں کوتاہی اور لاپروائی برتے گا تو ”لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا“ کے مطابق عمر بھر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

نوجوانوں کو درست سمت لے جانے اور انکی فکرسازی اور کردار سازی اور ان میں جذبہ قومیت و خدمت اجاگر کرنا کسی بھی قوم کے ہاں ایک اہم ذمہ داری ہوتی ہے، اگر نوجوان کو بیدار اور باشعور بنایا جائے، ان میں آگے بڑھنے کی لگن پیدا کی جائے، ان میں قومی مفادات کی ترجیح والی عادت ڈالی جائے تو کسی بھی قوم کا مستقبل کامیاب و محفوظ ہوسکتا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں: ؂

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر   فرد  ہے  ملت  کے   مقدر  کا  ستارا

نوجوانوں کی رہنمائی اور تربیت کسی بھی قوم و ملک کے مقاصد کا اولین ہدف ہے۔ پاکستان میں 15 سے 30 سال کی عمر کے نوجوان کل آبادی کے تریسٹھ (63) فیصد سے زیادہ ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کا ہر سیاسی لیڈر یہی چاہتا ہے کہ نوجوان کی صلاحیت سے وہ بھرپور فائدہ اٹھائے، ان کی پارٹی اور جلسے میں زیادہ تر نوجوان ہو۔ اور اسی کے لیے وہ نوجوان نسل کو سبز باغ دکھا کر ان کو ترقی، روزگار اور سہولیات مہیا کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ نوجوان نسل انہی سیاسی نعرہ بازیوں، جلسے جلوسوں اور اشتہار بازی میں مگن ہے، اور اسی میں وہ حال کا نفع و راحت تو حاصل کرتے ہیں لیکن مستقبل کی زندگی میں انھیں ان غلطیوں میں پر کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اگر نوجوان کی صحیح تربیت نہیں ہوئی تو یہی نوجوان مستقبل کا ظالم اور بدعنوان بنے گا۔

اب وقت ہوا چاہتا ہے کہ ہم اپنے نوجوان کو درست سمت کی رہنمائی کرے، اور انھیں اپنے اندر موجود ”معمار قوم“ کے راز سے آشنا کرے۔ انکی ذہن کو علم و آگہی، شعور و ادراک کے لڑی میں پروئے تا کہ وہ ”خودی“ کے راز کو پائے، ؂

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی

تُو اگر  میرا نہیں بنتا نہ بن،  اپنا  تو  بن

نوجوانوں کی تربیت میں ایک تربیت کنندہ مفکر اور دانشور کے علاوہ کتاب کا کردار بھی نمایاں ہے لیکن شومئی قسمت کہ پاکستان میں جہاں پہلے ہی سے نوجوانوں کی تربیت پر توجہ نہیں تھی اور جدید میڈیا کے توسط سے واہیات اور فضولیات کا جو طوفان برپا ہوا، اس کے وجہ سے پاکستانی نوجوان ایک الگ جہاں میں آباد ہوئے ہیں اور کتاب پڑھنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ نہ وہ خود کتاب کو ہاتھ لگاتے ہیں اور نہ ہی نصاب تعلیم میں کوئی خاصی مواد موجود ہیں۔ موجودہ نظام تعلیم انسان کو تو مشین بنانے پر زور دیتا ہے لیکن انھیں شعور، بیداری اور معاشرتی اقدار جیسے صفات نہیں سکھاتا۔ کیونکہ جنھوں نے ہمیں یہ نظام تعلیم دیا ہے وہ چاہتے ہی نہیں کہ ہمارے نوجوان ان صفات و عادات کو اپنائے۔

اب ہمیں جو کرنا ہے خود ہی کرنا ہے، ہمیں اپنے نوجوان کے ہاتھوں میں جدید زہریلی برقی آلات کے بجائے کتاب دینا ہوگا، کیونکہ کتاب ہی کے ذریعے ان میں شعور پیدا ہوگا، انھیں معلوم ہوگا کہ زندگی کو بامقصد اور کامیاب بنانے کا سلیقہ کیا ہے؟ معاشرتی و سماجی اقدار کیا ہیں؟ معاشرے کو تبدیل کیسے کیا جائے؟ سماج کو کیسے بہتر اور ترقی یافتہ بنایا جائے؟ والدین اور بڑوں کے ساتھ کیسے پیش آجائے؟ انکے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے؟ رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات کیسے رکھے جائیں؟ ملک و قوم کے عوام سے کیسا برتاؤ کیا جائے؟ غصہ کے وقت کس طرح معاملہ فہمی سے کام لینا چاہیے؟ نظام ظلم کے بدلے نظام انصاف کیسے قائم کی جائے؟ وغیرہ

کتاب ہی کے بدولت مسلم نوجوان اپنے شاندار ماضی سے جڑے رہیں گے، انھیں معلوم ہوجائے گا کہ ہمارا ماضی کیسا اور کیوں شاندار تھا؟ قوموں اور ملکوں کی ترقی یافتہ ہونے کا راز کیا ہے؟ دور حاضر میں مسلمانوں کی کمزوری کے وجوہات و اسباب کیا ہیں؟ ان سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

غرض ہر بات اور معاملہ اور علم ہمیں کتابیں ہی دے سکتی ہیں، یعنی اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم ایک تہذیب و ترقی یافتہ سماج اور ملک کی تشکیل کرے تو ہمارے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ ہم نوجوان نسل کو خود پسندی اور لہو لعب کی دنیا سے نکال کر کتاب کے دنیا میں لائیں، جس قوم کا نوجوان طبقہ کتابوں کو چھوڑتا ہے وہ قوم بہت ہی جلد زوال پذیر ہوتی ہے، دنیا کی کامیاب قوموں میں پڑھنے کا رواج زیادہ ہوتا ہے۔

علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں بھی نوجوانان کو فکر کا پیام دیا ہے، کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ مستقبل کے پیشوا یہی نوجوان ہونگے۔ اقبالؒ سے سچی محبت و عقیدت کا تقاضا ہے کہ ان کی فکر کو عام کیا جائے۔ تو ہمیں معاشرے کو علم و شعور کی آب و ہوا سے مزین کرنا ہوگا اور نوجوانوں کو زیور علم سے آراستہ کرنا ہوگا، تا کہ معاشرے میں اقبال کے حقیقی شاہین پیدا ہو، جو گفتار کے ساتھ کردار کے غازی بھی ہو، جو جذبہء قومیت اور خدمت سے معمور ہو کر ملک و قوم کی کامیابی کے لیے اپنے خدمات فراہم کریں۔

بشکریہ: روزنامہ ”چاند“ سوات، 23 ذی قعدہ 1444ھ، 13 جون 2023.

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی