سوات کی تقسیم پر روئیں یا ہنسیں سمجھ میں نہیں آتا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، لگتا ہے جیسے ہمارے ہاں سب سے بڑا کارنامہ تقسیم کے سوا کوئی نہیں۔ سوات کی حالیہ تقسیم اسی روایت کا تسلسل معلوم ہوتی ہے۔
کیا ہم واقعی ترقی کی طرف گامزن ہیں، یا صرف حد بندیاں بدل رہے ہیں؟ کیا ضلع کو دو حصوں میں بانٹ کر حکومت واقعی عوام کو بہتر سہولیات، قریبی انتظام اور ترقی دے رہی ہے، یا یہ صرف وسائل کی نئی تقسیم اور حد بندی ہے؟
سوات جیسے سیاحتی اور قدرتی حسن والے علاقے میں یہ تقسیم ماحولیاتی، ثقافتی اور انتظامی مسائل بھی پیدا کر سکتی ہے۔ بہت سے لوگ اسے ترقی کا قدم سمجھتے ہیں، اچھی بات ہے کیونکہ بالائی علاقوں (جیسے کالام، بحرین وغیرہ) کے لوگوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے اب دور نہیں جانا پڑے گا۔ لیکن دوسری طرف یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا تقسیم کے بغیر بھی انتظام بہتر نہیں ہوسکتا تھا؟
ایک سوال جو شاید ہم سب کو خود سے کرنا چاہیے۔ کیا یہ تقسیم سوات کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی، یا اس کے لیے مستقبل میں ہم احتجاج اور مظاہرے کریں گے؟
