فلم "دی تاج سٹوری" مسلمانوں کو تاریخ سے بےدخل کرنے کی کوشش

بھارتی سنیما گھروں میں 31 اکتوبر 2025ء کو ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام ”دی تاج سٹوری“ ہے۔ شاید آپ کو لگا ہو کہ یہ سفید سنگ مرمر سے بنے عشق و خوبصورتی کی علامت تاج محل کی کہانی ہو، لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہ فلم نہ تو تاج محل کی خوبصورتی بیان کرتی ہے اور نہ ممتاز کی یاد کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ بلکہ یہ اعلان ہے! جنگ اور نفرت کا! اور صرف تاج محل کے خلاف نہیں بلکہ ہندوستان کی صدیوں کی تاریخ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ یہ فلم کوئی تفریح نہیں بلکہ مخصوص اور شدت پسند نظریات کا منصوبہ بند پروپیگنڈا ہے جو مسلمانوں کو تاریخ سے بےدخل کرنے پر مبنی ہے۔

دی تاج سٹوری ہندو قوم پرست نظریات کے تحت بھارتی تاریخ کو نئے سرے سے لکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ پروپیگنڈا فلم ماضی کی اس افواہ کو فروغ دیتی ہے جو کئی بار عدالتوں نے مسترد کیا ہے۔ اس فلم میں ہندو شدت پسند عناصر کا دعویٰ ہے کہ تاج محل مغل بادشاہ کی طرف سے سترہویں صدی میں بنایا گیا مقبرہ نہیں بلکہ یہ تاریخی طور ایک مندر تھا اور اسکے آثار تاج محل کے نیچے موجود ہیں، جسے مغل حکمرانوں نے تاج محل میں تبدیل کرکے اسلامی تہذیب کا سب سے نمایاں نشان بنایا۔

در اصل یہ صرف دعویٰ نہیں بلکہ اس منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس کے جڑے ہندوتوا سے ملے ہیں اور اسکی قیادت نریندر مودی کی حکومت کر رہی ہے۔ اور اس کا مقصد بھارت کی تاریخ کو اس طرح دوبارہ لکھنا ہے کہ ہندوستان کو بنیادی طور ہندو وطن قرار دیا جائے، مسلمانوں کو عوامی یادداشت سے مٹا دیا جائے اور ہندوتوا کو واحد ثقافتی اور تہذیبی بنیاد بنا کر قوم پرستی کی بنیاد پر ایک نئی شناخت تشکیل دی جائے۔

The Taj Story-Ph-Google

اس فلم کا نام ”دی تاج سٹوری“ ہے اور اس میں مرکزی کردار بھارتی اداکار پرش راول کی ہے۔ یہ فلم بار بار مسترد کیے جانے والے اس دعوے پر مبنی ہے کہ تاج محل مغل کا بنایا ہوا مقبرہ نہیں بلکہ یہ اصل میں ”تیجو مہالیا“ نامی ہندو مندر تھا، جسے مغل حکمران شاہ جہاں نے چھین لیا تھا۔ حالانکہ اس دعوے کے پیچھے نہ تو کوئی معتبر تاریخی حوالہ ہے اور نہ آثار قدیمہ کا کوئی ثبوت موجود ہے۔ لیکن بایں ہمہ ہندو قوم پرست بیانیے کے رجحان کی وجہ سے یہ دعویٰ ہر چند سال بعد سر اٹھاتا ہے۔ اور اسکے ذریعے قوم پرست عناصر بھارت کی تشکیل اور شناخت میں مسلمانوں کے کردار کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کو حاشیہ پر دھکیلنا چاہتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف تاج محل کی تعمیر کی کہانی مغل تاریخ کے سب سے زیادہ مستند واقعات میں سے ایک ہے، جسے پوری دنیا جانتی ہے اور اسکے سارے تفصیلات، زمین کی خریداری، نقشے، ڈیزائن، اور مزدورں کی تعداد وغیرہ تک سب تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں۔ اور بھارت کے کسی بھی دور حتی کہ برطانوی دور میں بھی اس جگہ پر کسی پرانے مندر کے وجود کا تصور نہیں ہے۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ بھارت کے محکمۂ آثار قدیمہ نے ان دعوؤں کو مسترد کردیا ہے کہ یہ محض خیالی باتیں ہیں جن کی کوئی تاریخی اور سائنسی بنیاد نہیں ہے۔

یہ دعویٰ در اصل کسی ثبوت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک سیاسی اور ثقافتی ایجنڈے کی وجہ سے زندہ ہے جس میں ہندوستان کی مسلم حکمرانوں کو ”غیر ملکی حملہ آور“ کے روپ میں پیش کر کے ہندو قوم پرستی کے تنگ دائرے میں بھارتی شناخت کو دوبارہ تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں تاج محل اب بھی بھارت کی سب سے مشہور سیاحتی مقام ہے جسے 2024-2025 میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 69 لاکھ سیاحوں نے دیکھا۔

تاج محل کی جگہ ہندو مندر کے بلا ثبوت دعوے کی جڑیں 1980 میں لکھاری پرشوتم ناگیش اوک کی کتاب سے ملتی ہے، جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ تاج محل اصل میں شیو مندر تھا۔ یہ کتاب اور نظریہ اگر چہ اس کتاب تک محدود رہا اور کسی بھی علمی یا اکیڈمک حلقے میں تسلیم نہیں کیا گیا، لیکن ہندو قوم پرست حلقوں میں اسے بہت پذیرائی ملی۔ 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ نظریہ کتابی حاشیے سے نکل کر حکومت کے مرکزی دھارے تک آگیا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ مودی دور میں فلم، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا متبادل کلاس روم بن گئے ہیں جو ایک تاریخی بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں، تاکہ بقول انکے نئی قومی شعور کو تشکیل دیا جاسکے۔ اسی تناظر میں ”دی تاج سٹوری“ محض ایک تفریحی یا کہانی پر مبنی فلم نہیں بلکہ ہندو قوم پرست نظریات کے مطابق بھارتی تاریخ کو نئے سرے سے لکھنے کے بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فلم ایک ایسے بیانیے کو دوبارہ زندہ کر رہی ہے جسے بھارتی عدالتوں نے کئی بار مسترد کردیا ہے۔ تاہم یہ مقدمات اور انکے پیچھے کی کہانیاں میڈیا اور سوشل میڈیا پر مسلسل موجود رہتی ہیں، جس سے یہ افسانہ زندہ رہتا ہے اور ثقافتی و سیاسی منظر نامے پر اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔

ماہر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تاج محل کے بارے میں بار بار اٹھنے والے بے بنیاد دعووں سے یہ دو قطبی بیانیہ مضبوط ہوتا ہے جو ”اصل ہندوؤں“ اور ”آنے والے مسلمانوں“ کو الگ کرتا ہے۔ حالانکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کی ثقافتی و مذہبی روایات ایک دوسرے سے گہرے اور طویل روابط رکھتی ہیں جسے اس طرح کے بے بنیاد دعووں کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا۔

تاج محل کی موجودگی ایک حقیقت ہے اور اس کے جگہ پر مندر ہونے کا دعویٰ ہندوؤں کا عقیدہ ہے، اگر اس بے بنیاد دعوے کو درست قرار دیا جائے تو یہ حقیقت کی جگہ عقیدہ لے گا جو کہ کسی طرح ٹھیک نہیں ہے۔

یہ سب مسلم مخالف اقدامات اتفاقی نہیں، منصوبہ بندی کے تحت انجام دئیے جاتے ہیں۔ 2023 میں نصابی کتب سے مغل دور کے پورے ابواب ہٹانا، اسلامی دور سے متعلق مواد کو بہت کم کرنا، مہاتما گاندھی کے قاتل کی ہندو انتہا پسند نظریات کو ہٹانا، اسی طرح 2002 کے گجرات قتل عام کا سیاق و سباق حذف کرنا، مغل دور کی ساخت و تاریخ کے لیے مختص پورا باب غائب کرنا اس منصوبے کے تحت سر انجام دئیے گئے ہیں۔

عالمی میڈیا نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے بھارتی تاریخ سے اسلامی موجودگی کو صاف کرنے کی واضح کوشش قرار دی ہے۔ بھارت کی انتہا پسند نظریات کے حامل حکومت کا یہ رجحان اس بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس میں کئی تاریخی مساجد کو اس دعوے کے ساتھ مندر میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی ہے کہ ان مساجد کے نیچے پرانے ہندو مندر موجود ہیں۔

مغل دور کو تاریخ بدر کرنا در اصل بھارت کی تاریخ کے لیے خود بھی نقصان دہ ہے، کیونکہ مغل دور بھارتی تاریخ کی سیاسی اور ثقافتی ترقی کا ایک اہم دور ہے۔ نصاب سے تاریخی مواد کو ہٹانا بھارت کے ایسی نئی نسل تشکیل دے گی جسے درست تاریخ معلوم نہ ہوگی اور وہ انتہا پسند نظریات کی حامل ہوگی۔ اس تبدیلی سے وہ نئی نسل کو ایک ایسا بیانیہ پڑھانا چاہتے ہیں جو بھارت کے صدیوں کی تاریخ مسخ کر کے اسے خالص ہندو ملک پیش کرے، اور صدیوں کی ثقافتی و مذہبی تصور کو نظر انداز کرے جس نے جدید بھارت کی بہت سی شکل تشکیل دینے میں مدد فراہم کی ہے۔

تاج محل کو نشانہ بنا کر جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف ایک عمارت کی بات نہیں، بلکہ مسلمانوں کی صدیوں کی تاریخ کی بات ہے، جس کے ذریعے ہندو انتہا پسند مسلمانوں کی تاریخ اور یادداشت کی روح کو دفن کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن جس دن تاج محل خاموش ہوگیا تو سمجھ لیجیے کہ ہندوستان بھی خاموش ہوگیا۔

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی