یتیموں کے آنسو نہیں تھمتے


آج جب پوری دنیا میں معاشی جنگ کا بازار گرم ہے اور جنگی میدان میں ٹیکنالوجی اور اسلحہ کی وہ طاقت نہیں رہی جو معیشت کا ہے۔  اور اس معاشی جنگ میں فائدہ صرف سرمایہ داروں کو ملتا ہے جبکہ معاشی طور کمزور افراد کی حالت دگرگوں ہے۔ جتنا بھی سرمایہ دارانہ نظام عروج پاتا ہے اتنا ہی سرمایہ دار کامیاب جبکہ غریب اور کمزوری کی طرف جارہا ہوتا ہے۔ اور تو اور تعلیم و تربیت بھی طبقاتی ہوئی ہیں، جہاں ایک غریب ایک نوالہ پانے کیلئے تڑپتا ہے وہیں اسکے بچوں کو اچھی تعلیم و تربیت بھی نہیں ملتی کہ وہ بھی کپیٹل ازم کے لپیٹ میں ہیں۔ سرمایہ دار جو کہ ایک لقمہ میں بھی غریب کا محتاج ہے وہ اس غریب کا حال پوچھنا اور اسکا حق دینا تو درکنار اسے اپنی خوشیوں میں رکاوٹ گرادنتے ہیں۔


......... مُحسنِ انسانیتﷺ کا ارشادگرامی ہے ”زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا“۔ 

مال و رزق میں برکات و کثرت کسی غریب و بےبس لوگوں کے منہ میں لقمہ دینے سے آتے ہیں۔ کسی غریب کے گھر میں کھانا پہنچادو انکا دل خوش کرلو ہم بھی خوشی سے جی لینگے۔ انکے حوائج پورے کرو اپنے خوشیاں انکے ساتھ بانٹ دیں۔ ان پر خرچ کرنے سے آسمان والا ذات ہم پر خرچ کرےگا۔ وہ لمحہ بہت زیادہ قیمتی ہے جو یادِخدا یا مخلوقِ خدا کے خدمت میں گزرے۔ کسی یتیم و بیوہ کا سہارا بنو مظلوم کے مدد کرو انکے بد دعاء سے بچو کیونکہ انکے دعاء آسمان کے پردوں کو پھاڑ کر عرش تک جاتی ہے،  ہمارے سماج میں کتنے لوگ ہیں جو ایک وقت کے روٹی کیلئے مرغِ بِسمل کی طرح تڑپتے ہیں، جنکے ترستی نگاہیں کسی خدا والے کے منتظر ہوتے ہیں، جو انکے منہ میں ایک لقمہ پہنچادے اور اسے زندگی بِتانے کیلئے تیار کرے۔ ہر شخص کو زندگی میں ایک کندھے کی ضرورت ہوتی ہے جس پر وہ سر رکھے اور دو آنسو بہا کر زندگی کی جنگ لڑنے کیلئے تیار ہوجائے، اسلئے غریبوں کا کندھا بنو انکا سہارا بنو، انسانی جِبلّت ہے کہ تلاشِ رزق کیلئے کیا کیا نہیں کرتے ہمارے عدم تعاون سے یہ حالات کے مارے اکثر سنگین کاموں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں، یا پھر زندگی سے مایوس ہوتے ہیں، اس سے پہلے کہ یہ صورت حال پیدا ہوجائے، ہمیں انکو روکنا ہوگا ان سے تعاون کرنا ہوگا۔

 اس دنیا کا حال بھی کتنا عجیب ہے کہ ایک طرف کچھ لوگ جب وہ اپنے عالی شان مکانوں میں عیشِ نعمت کے دستر خوانوں پر بیٹھتے ہیں تو اس کے کتنے ہی ہم جنس سڑک پر بھوک سے ایڑیاں رگڑتے ہیں۔ جب وہ عیش و راحت کے ایوانوں میں حسن و جمال کی محفلیں آراستہ کر تے ہیں تو اس کے ہمسایہ میں یتیموں کے آنسو نہیں تھمتے اور کتنی ہی بیوائیں ہوتی ہیں جن کے بد نصیب سروں پر چادر کا ایک تار بھی نہیں ہوتا۔ یہ سماج ہمارے وجہ سے بدلے گا اس کی ترقی ہمارے ہاتھ میں ہے ہمیں اسے ترقی کے جانب لےجانا ہوگا ہمیں معاشرے کے کمزور افراد کا ساتھ نبھانا ہوگا۔ ہمیں اپنے بچوں کو بھی خدمت انسانیت کا جذبہ سکھانا ہوگا ہم اپنے بچوں کے تعریف اس وقت کرتے ہیں جب وہ دوسروں پر خرچ کرنے کی بجائے اپنے لیے بچا کر رکھ لیتے ہیں، دوسروں کیلئے جیو، دنیا کے اچھے لوگ دوسروں کیلئے جیتے ہیں، انہیں خبر ہوجاتی ہے کہ زندگی کے بعد زندہ رہنے کا راز دوسروں کی خدمت میں ہے۔ اللہﷻ والوں کے زندگی مخلوقِ خدا کے درد میں گزرتی ہے انہیں اللہﷻ سے محبت ہوتا ہے اور ظاہر ہے جس سے ہم محبت کرتے ہیں تو فطری طور پر ہر اس سے محبت کرتے ہیں جسکو محبوب چاہتا ہے اور اللہﷻ اپنے بندوں سے بہت محبت کرتا ہے ان سے اچھے برتاؤ کرنے پر خوش ہوتا ہے اسلئے اللہﷻ والوں کے زندگی مخلوقِ خدا کی خدمت کیلئے وقف ہوتی ہے۔ یہاں پر ایک مختصر واقعہ ذکر کرنا بےجا نہ ہوگا: 

.......... حضرت خواجہ باقی باللہ رحمة اللہ علیہ ہندوستان میں اللہﷻ کے ایک بڑے ولی گزرے ہیں، ایک بار وہ لاہور تشریف لائے اور ایک سال تک لاہور میں مقیم رہے اس زمانے میں لاہور میں سخت قحط تھا حضرت خواجہؒ لوگوں کی پریشانیوں اور مصیبت کو دیکھ کر بہت بےقرار ہوجاتے۔ اور جب آپ کے سامنے کھانا لایا جاتا تو فرمایا کرتے تھے:

”یار! یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مخلوقِ خدا بھوک پیاس کے مارے گلیوں میں تڑپتی پھرے اور ہم گھروں میں بیٹھ کر اطمينان سے کھائیں“۔ 

..... چنانچہ آپؒ کا معمول رہا کہ جب کھانا لایاجاتا تو آپؒ وہ قحط زدوں کو دیتے تھے اور خود کبھی کبھی سوکھی روٹی کے چند ٹکڑے پانی میں بھگو کر کھالیتے۔

......... یہ اللہﷻ کے نیک بندوں کا مخلوق خدا سے برتاؤ ہے۔ امداد کرنے کیلئے کوئی مخصوص وقت یا پھر مخصوص کام کی کوئی ضرورت نہیں مثلاً کہ صرف عید کے دن دے دیا اور باقی دن ایسا ہی چھوڑدیا۔ یا امدادی کام اکیلے یہ بھی نہیں کہ کسی کو کھانا کھلایا۔ بہت سے طریقے ہیں، مثلاً آپ ڈاکٹر ہے تو اپنا فیس بھی ایک معیار میں رکھے، ضرورت سے زیادہ ٹیسٹیں، دواییاں ہرگز نہ لکھے۔ دوا میں منافعہ بھی اندازے سے کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی غریب آئے اور آپکا بھاری فیس ادا کرے اور ساتھ میں آپ اسے ٹیسٹوں اور دواؤں کا انبار لگائے اور وہ بھی ایسے دواییاں جسکی نرخ آسمان سے بات کررہاہو، ارے بھئی وہ بیچارہ بینک سے تھوڑی آیا ہے؟ اس نے ماہ بھر میں جو پیسے دیہاڑی اور مزدوری سے کمائے تھے آپ نے ایک پرچی پر لکھ دیئے۔  تو یہ بےبس اتنے پیسے لائے گا کہاں سے؟ رقم جمع کرنے کیلئے جیب میں روپیہ ختم ہو تو وہ بیچارہ کرےگا کیا؟


.......... یا آپ دوکاندار ہے تو اشیاء خورد و نوش میں منافعہ بھی گزارحال کرے یا پھر دوسرے کسٹمرز کے بنسبت آپ اپنے محلے اور گاؤں کے کمزور و غرباء افراد کو جانتے ہونگے ان سے کم منافعہ کرے۔ اس طرح آپ زندگی کی جس شعبے سے بھی تعلق رکھتے ہو تو امت کے اس طبقہ کا خیال ضرور رکھیں۔ یہ ہماری لئے سعادت کی بات ہوگی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے عدم توجہ سے خوشی کی دنوں میں کسی غریب کے بچیوں کے معصومانہ خواہشات و احساسات خودکشی کرے۔ کہیں کوئی باپ اپنے بچوں کے نظر میں اپنے آپ کو ”ناکام باپ“ تصور نہ کرے جو اپنی بچیوں کے خواہشات پورا نہ کرسکا۔ جہاں اپنے بچوں کے کپڑے، جوتے، کھانے پینے کا فکر ہے تو وہاں محسن انسانیتﷺ کے امت کے اس طبقے کے بچوں کیلئے بھی فکرمند رہیں۔ جب کبھی اپنے بڑے بڑے گاڑیوں میں اپنے بچوں کو تفریح پر لےجانے کیلئے بیٹھاؤ تو دور کھڑے آنسو سے بھرے نظروں سے دیکھنے والے یتیم کو بھی شریک سفر بنالینا۔ جب بیوی کیلئے شاپنگ کرنا ہو تو محلے کی گھروں میں کام کرکے زندگی بسر کرنی والی بیوہ کو نہ بھولنا۔ جب کبھی بینک سے گھروالوں کیلئے رقم نکلواؤ تو غرباء کا حصہ بھی مقرر کرنا۔ جہاں اپنے بچوں کے اچھی و معیاری تعلیم و تربیت اور انکے کامیاب مستقبل کا سوچ ہے تو غریب کے بچوں کیلئے بھی تھوڑا فکرمند رہیں۔ کبھی اس یتیم کا بھی باپ تھا جو اسکے نئے نئے خواہشات کو پورا کرتا تھا۔ جو اپنے بچے کو کندھوں پر بیٹھاکر سارے گاؤں گھماتا تھا۔ کبھی اس بیوہ کا بھی رفیقِ حیات تھا جو اسکے ہرقسم آرزؤوں کو پورا کرتا تھا، جو اسکی منہ مانگے شاپنگ کرواتا تھا۔

.......... تو مت بھولنا کہ کل کو یہ روز آپ پر یا آپکے بچوں پر بھی آسکتا ہے۔ ہم اپنے بارے میں کچھ دکھ برداشت نہیں کرسکتے اور دوسروں کیلئے ہمارے دلوں میں تھوڑا سا احساس بھی نہیں ہوتا۔ جبکہ انسانیت کی مثال ایک بدن سی ہے کہ سر میں درد ہو تو سارا جسم بے چھین، آنکھ میں تکلیف ہو تو سارا بدن بےقرار رہتا ہے اسی طرح ہمارے اندر بھی یہ احساس ہونا چاہئے کہ ایک دوسرے کی دکھ اور تکلیف کو محسوس کرے۔ اپنے خوشیاں اور دکھ ایک دوسرے کے ساٹھ بانٹ دیں۔ ہم لوگ صرف خود کے سگے ہوتے ہیں، ہمارے اندر احساس مفقود ہے جبکہ احساس ایک ”زندگی“ ہے۔ ایک دوسرے کا سہارا بنو تاکہ ایک کامیاب ”معاشرہ” تشکیل ہوجائے۔ تمام مخلوق اللہﷻ کے عیال ہے اور اس مخلوق میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند وہ ہے جو خدا کے عیال سے بھلائی کرے۔ اللہﷻ کا محبوب بندہ بنئے، انکے کنبہ سے اچھا برتاؤ کرے اللہﷻ بھی خوش ہوجائےگا اور ملت کو بھی شانتی ملےگی۔ اللہﷻ ہم سب کو انسانیت کے خدمت اور انکے درد و دکھ کا احساس کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

آمین،

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی