ابتدائیہ:
قرطاس تاریخ پر جن شخصیات کے نام اور کارنامے مرسّم ہیں ان میں مولانا ابوالکلام آزاد منفرد اور ممتاز حیثیت کے حامل ہے۔ مولانا آزاد بظاہر تو ایک شخصیت ہے لیکن در اصل وہ کئی شخصیات کا مجموعہ ہیں۔ مولانا آزاد بیک وقت مفکر بھی، دانشور بھی، عالم بھی، محقق بھی، مفسر بھی، فلسفی بھی، خطیب بھی، صحافی بھی، سیاست دان بھی، ادیب بھی، انشاء پرداز بھی، شاعر بھی اور صوفی بھی تھے۔ عام طور ایک انسان ایک ہی شخصیت کے ساتھ نمودار ہوتا ہے لیکن مولانا آزاد کی حالت اس سے مختلف ہے، مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ "انسان کی تعریف اور پہچان میں سب سے بڑا حائل "تشخص" ہوتا ہے۔ بعض لوگ تو ایک تشخص کے مالک ہوتے ہیں لیکن بعض تو بے شمار تشخصات لئے پھرتے ہیں۔ جس کی تعریف، ادراک اور پہچان میں اکثر اہل علم غلط فہمی کے شکار بن جاتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ عام لوگ باقی امثال کی طرح اس کو بھی ایک زاویہ سے دیکھنے کی غلطی کرتے ہیں، حالانکہ وہ زاویہ کی بجائے "جہات" پر حاوی رہتے ہیں"۔ یہی بات مولانا آزاد کے بارے میں بھی پیش آئی کہ آپ مختلف شخصیات کے جامع ہیں اور ہر ایک شخصیت کی پہلو میں آپ نے کارہائے نمایاں سر انجام دی ہیں۔
ولادت اور خاندان:
مولانا آزاد 11 نومبر 1888ء کو مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے جہاں انکے والد گرامی مولانا خیرالدین مقیم تھے۔ مولانا آزاد کا اصلی نام محی الدین، لقب ابوالکلام اور تخلص آزاد تھا۔ مولانا آزاد ماں باپ دونوں کے طرف سے ایک علمی و روحانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مولانا آزاد کے دادا مولانا محمد ہادی دہلی کے مشہور خاندان علم و طریقت سے تعلق رکھتے تھے۔ جبکہ آپ کی والدہ مدینہ منورہ کے مفتی شیخ محمد بن ظاہر کے بھانجی تھیں۔ آپکے والد گرامی مولانا خیرالدین بھی صاحب علم و طریقت شخصیت تھے جو متعلقین و متوسلین کی ایک بڑی تعداد رکھتے تھے۔ مولانا خیرالدین ہندوستان سے ہجرت کرکے مکہ میں مقیم ہوگئے تھے جہاں شیخ محمد بن ظاہر کی بھانجی سے آپکا نکاح ہوا تھا۔ مولانا خیرالدین کے پاؤں میں چوٹ لگنے کے وجہ سے وہ علاج کے لیے کلکتہ ہندوستان واپس آئے۔ اور یہاں مریدین و متوسلین کے اصرار پر یہیں مقیم ہوگئے اور یہیں پر مولانا آزاد کی تعلیم و تربیت تکمیل تک پہنچی۔
تعلیم و تربیت:
مولانا آزاد کو اللہﷻ نے بچپن ہی سے انتہائی مضبوط اور تیز حافظہ سے نوازا تھا۔ مولانا آزاد کی تعلیم کے لیے انکے والد نے مخلتف مضامین میں ممتاز اہل علم کو چن کر ان کے لیے گھر پر پڑھانے کا انتظام کیا تھا کیونکہ انکو کلکتہ کے سرکاری مدرسوں کی تعلیم میں وقعت نہیں تھی اور کلکتہ سے باہر وہ مولانا آزاد کو مدرسہ بھیجنا نہیں چاہتے تھے۔ مولانا خیرالدین زندگی کے قدیمی آداب پر یقین رکھتے تھے اور مغربی تعلیم پر انھیں اعتماد نہیں تھا اور انکا خیال تھا کہ جدید تعلیم مذہب و عقیدے کےلیے زہر قاتل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مولانا آزاد کو جدید تعلیم دلانے کا کبھی ارادہ نہیں کیا۔ مولانا آزاد نے ساری تعلیم گھر پر حاصل کی اور سولہ سال کی عمر میں نصاب مکمل کرنے کے بعد والد نے انکے سامنے پندرہ طالب بٹھائے اور آپ نے انکو پڑھانے کا آغاز کردیا۔
حصول تعلیم و تربیت کے بعد مولانا آزاد اپنے خاندان کے موروثی عقائد و افکار اور علم پر قانع نہیں رہے، انھیں احساس تھا کہ علم و تحقیق کی دنیا اس سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ چنانچہ انھوں مزید علم و تحقیق کےلیے جدوجہد شروع کیا اور اس راہ میں آپ کو جن ذہنی درماندگیوں اور ٹھوکروں کا سامنا ہوا جنکا ذکر انھوں مختلف جگہوں پر کیا ہے۔ لیکن مولانا آزاد کے طلب صادق نے کبھی انھیں رکنے نہیں دیا اور بالآخر آپ علم، ادب، صحافت اور سیاست ہر ایک میدان میں ممتاز حیثیت کے ساتھ ابھرے۔
سیاسی اور صحافتی زندگی:
مولانا آزاد علم و ادب کے ساتھ ساتھ اب صحافت و سیاست کے سرگرمیوں میں بھی حصہ لینے لگے تھے۔ اللہﷻ اپنے بندوں میں سے بعض کو بے شمار صلاحیتیں عطا فرماتا ہے، مولانا آزاد بھی ان لوگوں میں سے ایک تھے، آپ کو خداوند تعالی نے بے شمار صلاحیتیوں سے نوازا تھا جن میں ایک صلاحیت اور فن صحافت ہے۔ آپ ایک تیز حافظہ اور وسیع علم کے صاحب تو تھے ہی لیکن صحافت کے شعبے نے انکے علم و فکر، ادب و تحقیق سے اب ہندوستان کے باسیوں کو بھی مستفید ہونے کا ذریعہ مہیا کیا۔ مولانا آزاد نے صحافت کے شعبے میں عمر عزیز کے ستائیس (27) بہاریں صرف کی ہیں۔ آپ ایک صحافی اور نثر نگار کا دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ ابھی آپ نثرنگاری کے ابتدائی دور میں تھے کہ آپ نے ”المصباح“ نامی جریدہ جاری کیا اور باقاعدہ صحافت کا آغاز کیا۔ مولانا آزاد نثر نگاری کے ساتھ شعر و شاعری میں بھی بہت مہارت رکھتے تھے اور مختلف رسائل و جرائد میں آپکا کلام شائع ہوتا تھا جن میں ”ارمغان فرخ“، ”نیرنگ عالم“ وغیرہ شامل ہے۔ ”المصباح“ کے بعد مولانا ”احسن الاخبار“ سے وابستہ ہوئے، اسکے بعد مولانا آزاد نے ”ایڈورڈ گزٹ شاہجہانپور“ اور ”خدنگ نظر“ میں بالترتیب وقتی ایڈیٹر اور نثری حصے کے ایڈیٹر کی ذمہ داری سنھبالی۔ صحافت کے میدان میں ان تجربات نے مولانا آزاد کو ایک ماہنامہ جاری کرنے کے طرف مائل کیا اور صاحب بصیرت اور صاحب طلب صادق مولانا نے جلد ہی 20 نومبر 1903ء کو کلکتہ سے ماہنامہ ”لسان الصدق“ جاری کیا۔ یہ ایک علمی رسالہ تھا جس میں علمی و ادبی، اخلاقی اور سائنسی مضامین شائع ہوتے تھے۔ مولانا آزاد کی انداز نگارش کا اثر تھا کہ قارئین انکے گرویدہ ہوگئے اور انکا خیال تھا کہ یہ مدیر کوئی تجربہ کار بزرگ ہونگے۔ اس دور میں مولانا شبلی نعمانی، ڈپٹی نذیراحمد، مولانا حالی وغیرہ اہل علم موجود تھے، مولانا آزاد کی علم و بصیرت اور صحافتی صلاحیت و قابلیت دیکھ کر ان بڑے بڑے اہل علم کی توجہ ان پر تھی اور اس وجہ سے مولانا شبلی نے انکو لکھنؤ آنے اور ”الندوہ“ سے وابستہ ہونے کی صلاح دی۔ چنانچہ مولانا آزاد اکتوبر 1905ء سے مارچ 1906ء تک ”الندوہ“ کے نائب مدیر رہے۔ الندوہ کے بعد ”وکیل امرِتسر“ میں مدیر ہوئے۔ اسی طرح مولانا آزاد کی صحافت کا پہلا آٹھ سالہ دور ”المصباح“ سے شروع ہو کر ”وکیل“ پر تمام ہوا۔ ان آٹھ سالہ تجربات، صلاحیت و قابلیت کے بعد مولانا آزاد نے 13 جولائی 1912ء کو ہفت روزہ ”الہلال“ جاری کیا۔ الہلال پہلا باتصویر رسالہ تھا جس میں مضامین، دیگر ممالک سے آئے مکاتیب و شذرات سمیت خبریں سب کچھ انتہائی شان سے شائع ہوتے تھے۔ الہلال میں ممتاز اہل علم و قلم جیسے مولانا شبلی، علامہ اقبال، سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی، حسرت موہانی وغیرہ لکھتے تھے۔ الہلال نے مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی زندگی میں ایک تبدیلی پیدا کی اور برٹش سرکار متزلزل ہوئی۔ برطانوی حکومت نے پے در پے حملوں کے بعد بالآخر الہلال کو بند اور مولانا آزاد کو رانچی میں نظر بند کردیا۔ پانچ مہینے بعد مولانا آزاد نے 12 نومبر 1915ء کو دوسرا ہفتہ وار اخبار ”البلاغ“ جاری کیا۔ البلاغ میں بھی مولانا آزاد نے جذبۂ ایمانی سے مسلمانوں کو ناانصافی، ظلم و جبر کے خلاف سینہ سپر ہونے کی دعوت دی۔ البلاغ کے لکھنے والوں میں بھی ممتاز اہل قلم شامل تھے، البلاغ بھی الہلال کے نقش قدم پر تھا البتہ اسکا انداز دعوت کا تھا اور مولانا آزاد اس میں قرآن کی مدد سے نیم سیاسی خیالات بھی لکھتے تھے۔ مارچ 1916ء میں حکومت بنگال نے مولانا آزاد کو اخراج کا حکم جاری کیا اور اسکے ساتھ البلاغ بھی بند ہوگیا۔ اسی دور میں گانگریس، خلافت کمیٹی اور جمعیت علماء ہند نے ملک کے طول و عرض میں آزادی کےلیے جدوجہد تیز کی تھی۔ مولانا آزاد بیک وقت ان جماعتوں کے فعال رکن تھے اور اس شدید مصروفیت کے باوجود انھوں نے کبھی نہیں بھولا کہ جب تک ایک اہم اور موقر اخبار نہ ہو تو عوام تک اپنا مافی الضمیر پہنچانا اور انکو آزادی کے جدوجہد کے لیے تیار کرنا مشکل ہے۔ اس وجہ سے ان حالات میں انھوں نے 23 ستمبر 1921ء کو کلکتہ سے ایک اور ہفتہ وار اخبار ”پیغام“ جاری کیا جس کے نگران مولانا آزاد تھے لیکن ترتیب کی ذمہ داری مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نبھا رہے تھے۔ سیاسی ذمہ داریوں اور مصروفیات کے وجہ سے مولانا آزاد اس میں تواتر کے ساتھ لکھ نہ سکے۔ 17 نومبر 1921ء کو برطانوی شہزادہ ویلز کی ہندوستان آمد کے وقت ملک گیر بائیکاٹ میں ”پیغام“ کے مضامین اہم رول ادا کررہے تھے اس وجہ سے اسکے ایڈیٹر مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی اور نگران مولانا آزاد کو گرفتار کیا گیا اور یوں پیغام اخبار ساڑھے تین مہینے بعد بند ہوگیا۔ اس طرح ہم مولانا آزاد کی صحافتی زندگی کو تین ادوار پر تقسیم کرسکتے ہیں: پہلا دور جو ”المصباح، مخزن، وکیل اور لسان الصدق“ سے تعلق رکھتا ہے یہ خالص علمی و ادبی تھا۔ دوسرا دور ”الہلال“ سے تعلق رکھتا ہے جو سیاسی دور تھا۔ اور تیسرا دور ”البلاغ و پیغام“ کا ہے جو مذہبی و اصلاحی دور تھا۔ ان تینوں ادوار میں مولانا آزاد نے جو کچھ لکھا اس نے مولانا آزاد کی علمیت، صلاحیت اور قابلیت کی شہادت تو دی ہی لیکن ساتھ ہندوستان کے عوام کی مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور علمی و عملی بیداری کا کام بھی سرانجام دیا اور عجب نہیں کہ مقصد بھی یہی تھا۔
ہندوستان کی سیاسی اور آزادی کی تحریک میں شامل ہونے کے ساتھ مولانا کو یقین تھا کہ اس مقصد کے لیے بیداری پیدا کرنے کا اہم ذریعہ صحافت ہی ہے اور اس لیے مولانا آزاد نے اس میدان میں اخلاص، ہمدردی اور صلاحیت کے ساتھ کام کیا اور صحافت کے شعبے کو وہ مقام عطا کیا کہ اس پر وہ ہمیشہ فخر کرے۔
مولانا آزاد کی ذات مجموعۂ کمالات تھی اور خدا نے انکو متعدد خوبیوں سے نوازا تھا، آپ ہر میدان کے خضر راہ تھے۔ مولانا نے صحافت کے پیشے کو معزز بنایا اور صحافی کو معاشرے اور قوم کا ایک اہم فرد اور ذمہ دار قرار دیا۔ مولانا آزاد سیاست میں بھی ممتاز اور منفرد مقام رکھتے تھے۔ ہندوستان کے انقلابی جوانوں سے مل کر آپ بھی وطن کے آزادی کے لیے جدوجہد کرنے لگے۔ مصر، عراق اور ترکی کے اسفار کرنے اور وہاں کے سیاست کو قریب سے دیکھنے کے بعد آپ نے ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی شعور کو محسوس کیا اور ہندوستانی سیاست کو سمجھنے میں انھیں دیر نہیں لگی۔ اور انہی اسفار نے آپکو ”الہلال“ اور ”البلاغ“ جاری کرنے کےلیے ذہنی طور تیار کیا تھا۔ یعنی مولانا کی صحافتی زندگی انکی سیاسی زندگی کا پیشہ خیمہ تھی۔ مولانا آزاد چاہتے تھے کہ مسلمان بھی ہندوستان کی آزادی کے لیے سیاست میں حصہ لے۔ آپ فرماتے تھے کہ:
”ہندوؤں کے لیے آزادی کی جدوجہد کرنا داخل حب الوطنی ہے، جبکہ مسلمانوں کے لیے یہ ایک دینی فریضہ اور داخل جہاد فی سبیل اللہ ہے“۔
مولانا آزاد خلافت تحریک، ترک موالات، حزب اللہ اور ریشمی رومال سے وابستہ رہے تھے لیکن 1920ء میں وہ گانگریس میں شامل ہوئے اور پھر آخر تک وہ گانگریس میں ہی رہے۔ مولانا آزاد گاندھی جی سے متاثر تھے اور جب 1920ء میں گاندھی نے عدم تعاون کی تجویز پیش کی تو مولانا نے غیرمشروط طور انکا ساتھ دیا۔ عدم تعاون کے وجہ سے ایک بار پھر گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہوا اور مولانا آزاد بھی گرفتار ہوئے۔ مولانا کی رہائی تک گانگریس میں پھوٹ پڑ چکی تھی اور گانگریس کے اہم لوگوں نے علیحدہ پارٹیاں بنائی تھیں۔ مولانا آزاد نے اپنے ممتاز سیاسی فکر اور دور اندیشی سے گانگریس کے لیڈروں میں مفاہمت شروع کی اور ان سب کو پھر سے ایک مقصد اور نصب العین کے لیے جمع کیا۔ اسی حالت میں گانگریس کے ارکان نے مولانا کو گانگریس کا صدر منتخب کیا، اس وقت آپکی عمر 35 سال تھی اور آپ گانگریس کے سب سے کم عمر صدر تھے۔
مولانا کا دور صدارت انتہائی مشکل اور کٹھن دور تھا لیکن آپکی معاملہ فہمی نے ہر مشکل کو آسان بنایا۔ گاندھی سے لے کر جناح تک سب لیڈر آپ سے ہر مشکل میں مشورہ طلب کرتے تھے۔ مولانا آزاد انسان دوست انسان تھے، آپ متحدہ قومیت پر یقین رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ ہندو مسلم دونوں سچائی اور محبت کے ساتھ مل کر ہندوستان کی آزادی اور خودمختاری کے لیے جدوجہد کرے کیونکہ ہندو مسلم اتحاد تعمیر ہندوستان کی بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دو قومی نظریہ اور تقسیم کے مخالف تھے کیونکہ یہ تقسیم ملکوں کی تقسیم نہیں تھی بلکہ ہندوستان میں بسنے والے قوموں کی تقسیم تھی جسکا نتیجہ قتل و قتال اور خون خرابہ ہی نکلنا تھا۔ اور مولانا کا یہی اندیشہ تاریخ نے واضح کردیا۔
مولانا آزاد کی کوشش تھی کہ مسلمان ہندوستان کی آزادی کے لیے قولاً و عملاً جدوجہد کرے کیونکہ آپ کے نزدیک آج کے دور میں مسلمانوں، مشرق بلکہ کرۂ ارض کی سچائی کو چیلنج کرنے والا برٹش گورنمنٹ ہی ہے۔ آپ چاہتے تھے کہ مسلمان اس سچائی کو تسلیم کرے اور احکام شرع کی روشنی میں جدوجہد کرے۔
آزادیٔ ہند کے آخری مراحل میں دو سیاست دان مثل آفتاب روشن تھے: ایک محمدعلی جناح اور دوسرے مولانا ابوالکلام آزاد۔ دونوں نے مختلف طریقوں سے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ جناح صاحب ایک قابل وکیل تھے اور مولانا ایک مدبر و دانشور۔ مولانا کے نظریے میں وسعت تھی، انھوں مسلمانوں کو تنگ نظری کی محدود فضاؤں سے نکالا اور انھیں اسلام کی فکر روشن عطا کی۔ اور یہی دعوت انھوں نے دوسری قوموں کو بھی دی کہ ایک دوسرے کے مذہب کی سچائی کو تسلیم کرے اور اپنے ایک نصب العین کے لیے کوشاں رہیں۔
مولانا آزاد کو دیگر شعبوں کی طرح خدا نے سیاست میں بھی صلاحیت، قابلیت، اور معاملہ فہمی نصیب فرمائی تھی۔ اس وجہ سے پنڈت جواہر لال نہرو جیسے بڑے بڑے سیاستدان آپ سے متاثر تھے اور اسکا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔
مولانا آزاد کے نظریات سے نہ صرف مسلمان اور ہندو بلکہ ہندوستان کے دیگر اقوام بھی متفق ہونے لگے اور گانگریس میں شامل ہوئے۔ لیکن مولانا آزاد کی متحدہ قومیت کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اور اسکے جو نقصانات آپ نے محسوس کیے تھے وہ سب نے اپنے آنکھوں کے سامنے دیکھے۔
آزادی کے بعد مولانا آزاد مرکزی حکومت میں وزیر تعلیم کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے لگے۔ اس وقت بھی قوم و انسانیت کے یہ عاشق اپنا مقصد نہیں بھولے۔ آپ نے ہندوستان کی تعلیمی نظام میں ایسے ترقی یافتہ منصوبے بنائے جس پر آج بھی ہندوستان کا سر فخر سے بلند ہے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، انڈین کونسل فار ایگری کلچر اینڈ سائنٹفک ریسرچ، انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ، انڈین کونسل آف سائنس ریسرچ کا قیام و توسیع مولانا آزاد کی کوششوں کا ثمرہ ہیں۔ مولانا آزاد کو ملک کا روشن مستقبل ٹیکنالوجی میں ہی نظر آرہا تھا اور اس وجہ سے آپ نے اسکی تعلیم و تحقیق پر خصوصی توجہ دی۔
مولانا کی ان خدمات کی اعتراف میں ہندوستان میں ہر سال آپ کے تاریخ ولادت (11 نومبر) کو قومی یوم تعلیم منایا جاتا ہے۔ مولانا آزاد ہندوستان کے وہ واحد رہنما تھے جن کے انتقال کے بعد ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی غرض یہ کہ ہندوستان کے ہر مذہب کے پیروکاروں کے آنکھوں میں آنسو تھے کیونکہ وہ ہندوستان کا نور تھا، علم و ادب کا ایک روشن باب تھا، ہندوستان کا عظمت تھا، اخلاص و انسان دوستی کا پیکر تھا۔ آپ کے انتقال پر اہل علم و قلم نے تعزیت نامے لکھے، مرثیے لکھے گئے اور ہندوستان کے اس غریب الدیار رہنماء کو الوداع کیا گیا۔ ؎
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
(جگن ناتھ آزاد)
نوٹ: یہ مضمون ایک خاص موقع کےلیے لکھا گیا ہے اسلئے اس میں مولانا آزادؒ کی زندگی کے چند گوشوں پر بحث کی گئی ہے۔ (راقم)