ہماری غفلت

ہماری غفلت
پتہ نہیں یہ ہماری سستی و کاہلی ہے یا بے پرواہی؟ ہم باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن کرتے کم ہیں۔ یوں سمجھیں ہم صرف گفتار کے غازی ہیں اور کردار تو الأمان والحفیظ!

ہماری زیست آدابِ زندگی سے عاری ہے۔ ہم کتابوں سے پڑھتے ہیں ان سے فائدہ حاصل کرتے ہیں،  لیکن ہم یہ جاننا گوارا نہیں کرتے  کہ اس کتاب کی عظمت کیا ہے؟ یہ کتاب ہم کو کتنا فائدہ فراہم کرتا ہے؟ اس کتاب کے ہم پر کوئی حق یا ادب ہے یا نہیں؟

اگر سچ کہوں تو ہم کتاب سے صرف اپنی ضرورت کی مطابق فائدہ لیتے ہیں جبکہ کتاب کے حقوق ادا نہیں کرتے جو کہ ایک لالچ ہے۔ اپنا فائدہ اٹھایا اور کتاب کو بس ایسے ہی چھوڑدیا۔

یہ بات واضح ہے کہ کتاب میں معلومات اور علم کے علاوہ بہت سے اچھی اچھی باتیں اور اقوال زریں موجود ہوتے ہیں۔ لیکن کیا کہے اس جدید دور کا کہ ہر کسی نے اپنے کمپنی اور دوکان کے شہرت اور اعتماد بڑھانے کیلئے اقوال زریں اپنے مصنوعات اور پراڈکٹس پر چسپاں کئے ہیں جو کہ اقوال زریں کی حقارت کا سبب ہے کیونکہ پہلے لوگ ایک اچھی بات سنتے تو اس کیلئے کتابوں کو مطالعہ کرکے تھکتے تھے اور اس وجہ سے انکے ہاں اقوال زریں کی عظمت بڑھ جاتی اور کوشش کرتے تھے کہ کہیں یہ بات یا حوالہ بھول نہ جائے۔ اور آج جبکہ اقوال زریں صرف دیواروں، مصنوعات اور گاڑیوں کی زینت بنی ہیں اور حقیقت میں اس پر عمل نہیں ہے تو لوگوں کے دلوں سے اقوال زریں کی عظمت و محبت رفتہ رفتہ نکل چکی ہے۔ کیونکہ لوگ اس مصنوعات کو استعمال کرکے پھینکتے ہیں مثلاً شاپر پر اچھی بات لکھ ڈالی دوسرے نے اسمیں دوکان سے کچھ سامان خریدا اور گھر پہنچتے ہی اسکو گاؤں کے گند کے ڈھیر یا پھر دوسرے پیشاب وغیرہ کے گندے جگہ میں پھینک ڈالا۔ تو وہ اچھی بات جس سے زندگیاں بدل سکتے تھے اور جس پر عمل کرکے کثیر افراد سنور سکتے تھے آج کمپنی کے ذمہ داروں کے بےپرواہی کیوجہ سے ایسے گندے جگہوں میں پڑھی ہے۔
میرے ساتھ بھی آج کچھ ایسا ہی ہوا۔ جب میں کام کی جگہ سے نکل کر ظہر کے نماز ادا کرنے کیلئے مسجد کی طرف چل پڑا، مسجد پہنچتے ہی قریبی پیشاب کیلئے بنی ہوئی جگہ کی طرف چلا، ٹیشو بھی دیوار میں لگی ہوئی تھی میں نے ٹیشو سے اپنے استعمال کے مطابق لیا اور پیشاب کرنے کیلئے بیٹھ گیا، بیٹھتے ہی یکدم میرے پیشاب بند ہوئے کیونکہ سامنے کموڈ میں ایک ماچس کا ڈبہ پڑا تھا اور اس پر یہ خوبصورت جملہ بمع عنوان ”اقوالِ زریں“ تحریر تھا: ”لامحدود خواہشات محدود زندگی کو عذاب بنادیتی ہے“۔
ہائے افسوس!
پھر کیا تھا؟ ایک طرف میرے دماغ کمپنی والوں اور اس ماچس کے ڈبے کو یوں غیرمناسب جگہ پھینکے والوں کیلئے پھٹ رہے تھے کہ اس ماچس پر اس جملے کی چھاپنے کی ضرورت کیا تھی؟ اور اگر چھاپا بھی تو ایک جملہ یہ بھی لکھیں کہ ”اقوال زریں کی حفاظت آپکی ذمہ داری ہے“۔ لیکن کیا کریں پھر تو آپ کے کمپنی کے نام اور لوگو کیلئے جگہ نہیں ملے گا نا! یہ جملہ تو نام کمانے کیلئے ہے۔
اور پھینکنے والے نے بھی نہیں سوچا کہ اس پر یہ جملہ ہے اور میں پھینک رہاہوں، خواہ مخواہ اگر پھینکنا ہے تو اس جملے کی جگہ کو کاٹ کر اپنے پاس محفوظ کرلو اور باقی کاغذ پھینک ڈالو۔ اگر آپ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تو  دیوار کے کسی سوراخ میں رکھ لیں کیڑے مکوڑے اس سے فائدہ اٹھائینگے کیونکہ یہ آپ کیلئے تو نہیں ہے نا!
اور دوسری طرف میں اس خوبصورت جملے کو یوں ضائع ہوتے دیکھ کر پریشانی کے عالم میں ڈوبتا چلا گیا۔ کہ ہماری غفلت اور عدم توجہ سے یہ خوبصورت اور اچھی بات ضائع ہوئی۔
میں اٹھ کھڑا ہوا ٹیشو سے اس کاغذی ڈبے کو پکڑا اور 
محفوظ کرلیا۔

سوشل میڈیا کے بڑھتے سیلاب اور اسمیں سماجی رابطے کے ایپس کے علاوہ تریفحی (Entertainment) اور ویڈیو گیمز کے ایپس کے بھرمار نے ہمارے نوجوان نسل کو اپنے آپ میں اتنا ڈبودیا ہے کہ وہ ڈراموں اور فلموں اور گیمز کا ایک ایک سیکنڈ ژرف نگاہی سے دیکھتے ہیں کہ کہیں کوئی جگہ نہ رہ جائے لیکن انکے پاس آرام و اطمينان سے کھانا کھانے، کام کاج، اور ماں باپ سے ایک دو باتیں کرنے اور انکا دل بہلانے کیلئے ٹائم نہیں اتنے اہم جملے اور کتابیں دیکھنے کیلئے انکے پاس ٹائم کہاں سے ملے گا؟

افسوس کی بات ہے ہم سماج میں خوشحالی اور نوجوان نسل کی تربیت چاہتے ہیں لیکن ان دونوں کیلئے اور جدوجہد کے علاوہ معاشرتی اور سماجی آداب کے بھی انتہائی ضرورت ہے جس سے ہم عاری ہیں۔ 

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

2 تبصرے

  1. اقوال زریں اور علمی ذخیرہ کیساتھ یہ سلوک یقینا یہ ہمارے غفلت و بےپرواہی کی وجہ ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی