خواہشات اور مقاصد

 
Khowahishat aur Maqaasid

اس دنیا میں ہر آدمی بلکہ ہر فرد انسان چاہے مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا جوان، چھوٹا ہو یا بڑا، لیکن ہر ایک کے اپنے اپنے خواہشیں ہیں اور ان خواہشوں کے مقابلے میں وہ دوسرے لوگوں کے خواہشات ماننے کےلیے تیار نہیں۔ پھر یہی جنس انسان دو طبقوں میں تقسیم ہوئے ہیں۔ ایک طبقہ ان انسانوں کا ہے جو اپنے خواہشات کے متبع ہیں، جنھوں نے اپنے خواہشات کے چنگاریوں کو بھڑکا دیا ہیں، جنھیں بس خواہشوں سے کام ہے کیونکہ انکا کہنا ہے کہ ویسے بھی ایک دن زندگی ختم ہوجاتی ہے زندگی سے لطف لینے کا تو یہی وقت ہے تو کیوں نہ اس کو چاہت اور خواہش کی مطابق گزار دیا جائے اور اسی طرح وہ بےفائدے کاموں میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ مستقبل میں ہم سب سے زیادہ اس وقت اور لمحے پر پچھتاتے ہیں جو بےفائدے اور فضول کام میں گزرا ہو۔ اور ظاہر ہے اس وقت ہمارے بس میں پچھتاوے کی سوا کچھ ہے ہی نہیں ہوتا۔

.....اور انسانوں کا دوسرا طبقہ وہ ہے جنھوں نے خواہشات کو کچل ڈالا ہیں، جنھوں نے اپنی ساری توجہ اپنے مقاصد اور مطالب پر مرکوز رکھی ہے۔ جنھیں اپنے تخلیق کی مقصد کو پانا ہے، انھوں نے اپنا سارا فوکس اسی بات پر مرکوز رکھی ہے کہ وہ آگے بڑھے اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائے۔ کیونکہ عام لوگوں کے تو خواہشات اور امیدیں ہوتے ہیں، اور کامیاب لوگوں کے مقاصد اور منصوبے ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ خواہشات میں کے اودھم میں بھٹکتے ہیں وہ اس ترقی یافتہ اور جدید دور میں بھی بہت پیچھے رہ جاتے ہیں، کسی کام کے نہیں رہتے، اور نہ کوئی ان کو کسی کا کام اہل سمجھتے ہیں۔ اور اسی طرح انکے زندگی کا اصل وقت یعنی جوبن کا بہار بے کار و بےمقصد گزرتا ہے اور جب انسان کی جوبن کا دور ختم ہوجائے تو پھر وہ زندگی کے بھاگ دوڑ کا نہیں رہتا۔ اسلئے ہمیں کوشش کرنا ہے، پہیم محنت کرنا ہے، تا کہ خواہشات کے اودھم سے خود کو نکلوائیں، خواہشات کو کچل ڈالیں، آگے بڑھنے کا سوچیں، مقصد کے خاطر زندگی کو بدل ڈالیں۔ خدمت خلق، نظم، محبت، عمل، یقیں، عبادت جیسے اعلیٰ و بلند مقاصد کو لے کر چلیں۔ دکھ، درد، مختلف تکلیفیں آئیں گے لیکن ہمت نہیں ہارنا! کیونکہ جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں، جو دوڑتے ہیں تکالیف انکے راہ میں حائل ہوتے ہیں، قدم بہ قدم انھیں مختلف دکھوں سے انھیں واسطہ پڑتا ہے۔ لیکن ازلی و فطرتی قانون کے مطابق ایک نہ ایک دن وہ لوگ میدان جیت جاتے ہیں، کامیابی و سرخروئی سے ہمکنار ہوجاتے ہیں، خوشی و سکون انکی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ ہمیں سوچ بدلنا ہوگا، بدلو سوچ بدلو زندگی! ہم زیادہ اس کام کے بارے میں سوچتے ہیں جو ابھی ہوا نہیں، اور انسان کو سب سے زیادہ تکلیف یہ بات دیتی ہے کہ وہ اس کام کے بارے میں سوچتا ہے جو ابھی ہوا ہی نہیں۔

ہمیں ہر جگہ، ہر مقام، ہر راستے پر انسان دوستی، محبت، اخوت کے روشنیاں بچھانا ہیں، کچھ فکر نہ کرو، آگے بڑھتے رہو اور اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے طرف چلتے رہو ایک نہ ایک دن کامیابی آپکے قدم چومے گی۔ ان شاءاللہ


حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی