راہِ سلوک اور تصوف کی حقیقت؛ تبصرہ

راہِ سلوک اور تصوف کی حقیقت؛ فوٹو: حیدرعلی صدّیقی 

نام کتاب: راہِ سلوک اور تصوف کی حقیقت
تحقیق و تالیف: شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد سردراز فیضی ؔ صاحب رحمہ اللہ تعالی
صفحات: ٢٢٤
ناشر: الفرید فقہی اکیڈمی سوات


 احسان و تزکیہ نفوس بالفاظ دیگر انسانوں کے روحانی تربیت کا سلسلہ دور مصطفویﷺ سے سینہ بہ سینہ تا عصر حاضر چلا آرہا ہے، ابتداء میں یہ سلسلہ اپنے ہی معنی و مقاصد کے راہ میں مستعمل ہوتا رہا۔ لیکن دَورِ مباہات، اِفشائے کذب اور ظہور فتن کے زمانے میں دین اسلام کے اس شعبے میں بھی دیگر شعبوں کے طرح بدعات و شبہات نکالے گئے۔ اور رفتہ رفتہ اس منظر میں احسان و سلوک کا یہ اہم شعبہ غلطیوں اور بدگمانیوں کا شکار ہوا۔ اور دین کا یہ شعبہ بھی مناظرہ و مباحثہ کا میدان ٹھہرا۔ اور اس شعبے کے بارے میں کیے جانے والے من جملہ غلطیوں میں ایک بڑی اور سنگین غلطی اس شعبے کے فہم میں ہوئی، ہر کسی نے اپنے ذہن کے مطابق تصوف و سلوک کا معنی گھڑ لیا۔ ہر کسی نے اس کا خودساختہ مفہوم وضع کیا؛ ایک طرف اگر کسی نے کثرت اوراد و وظائف کو تصوف مان لیا، تو کسی نے چند ظاہری رسوم کو تصوف ٹھہرایا۔

تو دوسری طرف بعض لوگ سرے سے  تصوف کی اصل کے منکر ہوگئے اور احسان و تزکیہ بالفاظ دیگر تصوف کو اسلام سے الگ ایک علیٰحدہ علم سمجھنے لگے۔ جبکہ حقیقت میں تصوف اسلام کے تین اہم شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے اور انبیاء علیہم السلام کے فرائض منصبی کا ایک حصہ ہے۔ مسند الہند حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ: ” پیغمبر اسلامﷺ نے جس چیز کی طرف دعوت دی ان میں سب سے اہم امور تین ہیں: ❶تصحیح عقائد، ❷تصحیح اعمال، ❸تصحیح اخلاص یعنی احسان (طریقت و سلوک)، اور ان تینوں میں بنیادی اور سب سے اہم اور اصل تصحیح اخلاص ہے اور یہ شریعت کا سب گہرا، اہم اور وقیع فن ہے“ (تفہیمات الہیہ)
استاذ محترم، یکتائے روزگار شخصیت مولانا مفتی محمد سردراز فیضی ؔ صاحب رحمہ اللہ تعالی نے اس موضوع پر قلم اٹھا کے نہ صرف اس موضوع کا حق ادا کیا بلکہ کتاب کے نام ہی کی طرح تصوف کو تمام تر بدعات و خرافات سے صاف کرکے اسکی اصلی مفہوم، حقیقت و ماہیت اور اہمیت کو آشکارا کیا۔ اور ساتھ ساتھ تصوف و سلوک کے بارے میں جتنے بھی اعتراضات و شبہات پیدا ہوئے تھے اور دور افشائے کذب میں تصوف کے ساتھ جو باطل خیالات و نظریات کی آمیزش ہوئی تھی ان کا بھی قلع قمع کیا۔ تصوف کی تاریخ، تصوف کی ماہیت و حقیقت کیا ہے؟ انسان کی مذہبی، روحانی، اور عقلی زندگی میں تصوف کی اہمیت، انسانی زندگی میں تصوف کا کیا اثر ہے؟ تصوف کے سلاسل چار سلسلوں میں کیوں قید ہیں؟ تصوف کے ساتھ غیراسلامی افکار کی آمیزش کیسے اور کیوں ہوئی؟ سائنسدان، فلاسفہ اور صوفیاء کے نزدیک تصور خدا کا مطلب و فرق کیا ہے؟ یہ وہ چیدہ چیدہ سوالات ہیں جو ہر مبتدی تصوف کے ذہن میں اجاگر ہوتے ہیں۔ جی ہاں! ان تمام اور ان جیسے اور سوالات کے جوابات آپ کو اس کتاب میں ملیں گے۔
موصوف ایک علمی و تحقیقی، ہمہ گیر اور ہر فن مولا Omnicompetent شخصیت تھے۔ کتاب دوست اور علم دوست اور رواں قلم کے مالک شخصیت؛ جس کے قلم سے خدواند نے بیک وقت بہت سے اہم کام لیے۔ اکیلے تصوف نہیں بلکہ موصوف نے دیگر اہم موضوعات پر بھی اپنے رشحات و نگارشات سپرد قلم کیے جو کہ منصۂ شہود پر آچکے ہیں۔ بظاہر ایک عاجز خو اور سادہ دل و سادہ پوشاک انسان....لیکن اندر سے علم و حکمت کا گہرا سمندر۔ جس کے بحر افادات میں علم و آگہی کے پیاسے غوطہ زن ہوتے۔ اس کتاب میں ایک طرف موصوف کی انداز تحقیق اور اس کی گہرائی اور وسعت قاری کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ تو دوسری طرف موصوف کا سادہ اور سہل انداز تحریر اور عبارتی تکلفات و طوالت سے بالاتر آسان اندازِنگارش قاری کے نظریں کھینچتا ہے۔


لیکن افسوس کہ زندگی نے موصوف کے ساتھ وفا نہ کی ورنہ آپ کے قلم سے مزید شذرات بھی صفحۂ قرطاس پر بکھرتے، اور ہزاروں تشنگان علم و حکمت ان سے مستفید ہوتے۔
مذکورہ کتاب کے ابتداء میں ہمارے دوسرے استاذ محترم مولانا مفتی محمد وہاب منگلوری صاحب نے ایک پیش لفظ بطورِ مقدمہ لکھا ہے جس کو اگر اس کتاب کا مختصر خلاصہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اور انھوں نے حضرت مفتی سردراز صاحب ؒ کو خراج تحسین بصورت نظم پیش کی ہے جو اسی کتاب میں قالبِ اشاعت میں ڈھالا گیا ہے۔ قارئین کے شوق و ذوق کےلیے پیش خدمت ہے: ؂

فائز ہے    کامران ہے    وہ    سرفراز  ہے
قسمت عجیب ان کی ہے قسمت پہ ناز ہے

ہے  دُور  مباہات    سے،  نا    آشنائے فخر
ہے     عجز   و   انکسار، سراپا  نیاز   ہے

ہے جانشین   شیخ    مارتونگ  و  بازرگی
عبد الحلیم  شیخ    کا    یہ   شاہباز   ہے

تدریس میں، تصنیف میں  یکتائے روزگار
دانائے    رمز علم،      شناسائے   راز   ہے

ہے بہرور حدیث کی  تدریس  سے   پر نور
قرآن    کی   تفسیر میں حکمت نواز  ہے

حکمت ہے    آگہی ہے،    تو ہے  سوز روم
مشرب میں قادری ہے، یہی سوز و ساز ہے

معشوق  ہے طلاب  کا، جویائے علم  و  فن
واہ   اعتدال    طبع،     یہی   امتیاز    ہے

محیط نصف صدی پہ ہیں اب ان کی خدمتیں
فرزندگانِ       مدرسہ    میں    مایہ    ناز  ہے

خراج     ہیں  تحسین یہ وہاؔب کے  اشعار
فیضی ؔ  ہے  نام ان  کا  وہی  سردراز  ہے

نتیجہ فکر: مولانا مفتی محمد وہاب منگلوری حقانی


........ راہ سلوک و تصوف کی مبتدئین، تصوف کی حقیقی روح اور انسانی زندگی میں اس کی اہمیت و کردار کو جاننے کےلیے اس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں۔


یہاں ایک ذاتی بات عرض کرتا چلوں کہ دربار خداوندی میں حضرت استاذ محترم مفتی سردراز فیضی ؔ صاحب ؒ (مؤلف کتاب) اور ان کے کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے، کہ میں اس سے پہلے کسی اور کتاب پر تبصرہ لکھنا چاہتا تھا، ایک ہفتہ سے زیادہ دن ہوئے لیکن وہ کتاب ابھی تک پوری نہیں ہوئی۔ جبکہ مفتی صاحب ؒ کی کتاب پڑھنا اور پھر تبصرہ لکھنا یہ سارا کام تین چار دن میں مکمل ہوا۔ الحمدللہ

اختتام

نوٹ: اس مضمون کو بغیر کسی کمی و زیادتی کے آپ اپنے دوستوں سے یا سوشل میڈیا فارمز پر شئیر کرسکتے ہیں، نیچے مختلف سوشل میڈیا آئکنز دکھ رہے ہیں، اپنے متعلقہ آئکن کو دبائیں۔ شکریہ

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی