عمر گزرنے والی ہے

زندگی کا سفر

دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر انسان ایک مختلف صورتحال سے گزرتا ہے، یعنی جس طرح انسانوں کے اشکال و طبیعتیں مختلف ہیں بالکل اسی طرح ہر انسان کے دلی کیفیت و حالت بھی مختلف ہوتی ہے۔ اگر ایک انسان کسی وجہ سے خوش ہے تو دوسرا اس وجہ سے پریشان رہتا ہے، ہر وقت کوئی حزین نہیں ہوتا اور نہ ہر وقت کوئی خوش ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی عمر گزرتی ہے چاہے انسان خوش ہو یا غمگین ہو، زندگی اپنی سفر میں انسان کی حالت و کیفیت کو نہیں دیکھتی، اور نہ ہی اس کو ان سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ انسان خوش ہو تو زندگی اپنی سفر کو ذرا طول دے تاکہ موصوف انسان زیادہ لطف لے سکے اور نہ یہ ہوسکتا ہے کہ کسی انسان کا دل ٹوٹا ہے تو زندگی کہے کہ یار بیچارا درماندہ تڑپ رہا ہے ذرا جلدی گزر جاؤں تاکہ اس غم سے اسے چھٹکارا ملے۔ کلا و حاشا! زندگی کی اپنی معیار و مقدار ہے اور اسی پر چل رہی ہے، اسے نہ کسی کے خوشی سے سروکار اور نہ ہی کسی کے غمی سے لینا دینا۔
جب زندگی کا یہ حال ہے تو اب انسان کو کیا کرنا چاہیے؟ انسان کو اپنی اس دو چار دن کی زندگی کو بامقصد و کامیاب بنانے کی ضرورت ہے، اسے اپنے مقصد و منزل کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ میں کون ہوں؟ کیا ہوں؟ کہاں سے کس لیے آیا ہوں؟ کہاں جانا ہے؟ یہ وہ چیدہ سوالات ہے جو انسان کے نس نس میں ہونی چاہیے تاکہ ذرا سی لغزش کے موقع پر اسے اندر سے ایک ہاتف پکار پکار کے اسے مقصد کے طرف متوجہ کرے۔ باقی یہ سب خوشی و غمی اس سفر کا حصہ ہے اسے ایک اتفاقی حادثہ سمجھ کر بھولنا چاہیے، جیسا کہ دنیا کا کوئی بھی سفر کسی تکلیف و صعوبت سے خالی نہیں ہوتا لیکن پھر بھی انسان اپنی بست و کشاد کے مطابق جدوجہد کرتا ہے اور سفر کو آسان بنانے اور مکمل کرنے کےلیے ہر ممکن جدوجہد سے خود کو مستغنی نہیں سمجھتا، اور اسی مقصد کےلیے دنیا کے جدید ایجادات بھی انسان نے اس سفر کو سہل و آرام دہ بنانے کے خاطر ایجاد کی۔ کیونکہ اسے ہر حال میں منزل تک پہنچنا ہے یہ اس کا مقصد ہے۔ بالکل اسی طرح زندگی کا سفر ایک بامقصد و عظیم سفر ہے، اسکا منزل نظروں سے اوجھل ہے لیکن کامیابی کے ساتھ منزل سے ہمکنار ہونے کے طریقے بتلائے گئے ہیں، سفر میں پیش آنے والے مشکلات کو ختم کرنے کےلیے ذرائع دیے گئے ہیں، لیکن اس استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم اس غرض سے بیٹھے رہیں گے کہ کوئی مسیحا ہمارا ہاتھ پکڑ کے ہمیں منزل تک لے جائے گا تو یہ ہمارا ادھورا خواب ہے، سالہا سال گزرنے کے بعد ہم وہیں کے وہیں رہ جائیں گے۔ زندگی کو نہ ہم پر اور نہ ہماری حالت پر ترس آتی ہے اسے اپنی رفتار سے غرض ہے۔ جو زندگی گزر گئی سو وہ تو بیت گئی اس پر سوائے افسوس کے کوئی چارۂ کار نہیں، لیکن اگر ہر وقت اس کو دہرایا جائے اور بالکل پہلی ہی طرح فضول بیٹھا رہے تو اس سے اچھا ہے کہ ماضی کو بھلایا جائے اور مستقبل کے بارے میں مثبت سوچ اپنایا جائے۔ پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ ” ایک آدمی دریا کے کنارے بیٹھا اس کے موجیں شمار کر رہا تھا کہ اچانک اس سے تعداد بھول گیا اور اداس بیٹھ گیا۔ اتفاقا اس راستے سے کوئی دوسرا آدمی گزر رہا تھا اس نے اس کو اداس دیکھ کر پوچھا کہ: بھئی کیا ہوا؟ تو اس نے جواب دیا کہ: میں دریا کے موجیں شمار کر رہا تھا اور اب تعداد بھول گیا اس لیے اداس ہوں۔ اس نے کہا: ارے او پاگل! اس میں کونسی بڑی بات ہے جو موجیں گزر گئے وہ تو گزر گئے جو آنے والے ہیں اس کو شمار کرو۔“
بالکل اس طرح جو زندگی گزر گئی وہ تو گزری، اب لاکھ پچھتائے، لاکھ افسوس کرے لیکن وہ لوٹے گی نہیں۔ تو اب آنے والی زندگی کو سوچنا چاہیے، اس میں مقصد کو کیسے حاصل کیا جائے؟ ترجیحات کا تعین کیسے کیا جائے؟ خود شناسی سے خدا شناسی کیسے حاصل ہو؟ اس کے بارے سوچنے اور عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ تب ہم چین و سکون کے زندگی جی لیں گے، ہم قناعت سے بہرور ہوجائیں گے۔ زندگی  بہت مختصر ہے اس کو قیمتی بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ زمام حیات کسی اور کے قبضے میں ہے، وہ جب چاہے تو رسی کھینچے اور ہماری روح قفس عنصری سے پرواز کر جائے اور صدیوں کا سفر لمحوں میں کٹ جائے۔
★رہے نام اللہ کا★
حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی