محترم آغا شورش کاشمیرؔی ؒ

آغا شورش کاشمیرؔی ؒ

آغا شورش کاشمیرؔیؒ کا اصل نام عبدالکریم اور والد گرامی کا نام میاں نظام الدین تھا۔ آپ ١٤ اگست سن ١٩١٧ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے خاندان کا تعلق کشمیر سے تھا لیکن پھر وہ کسی زمانے میں امرِتسر چلے گئے۔ آغا عبدالکریم شورش کاشمیرؔیؒ کے والد گرامی نے لاہور کو اپنا مسکن بنا لیا۔ اس لحاظ سے شورش کاشمیرؔی ؒ کا آبائی وطن کشمیر و امرتسر جبکہ جائے ولادت و منشائے طفولیت لاہور ہے۔ آپ لاہور میں رہتے ہوئے بھی مشہور کشمیر کے نسبت سے ہوئے۔

شورش کاشمیرؔیؒ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے جہاں معاشی ابتری کا دور تھا، اور اسی صورتحال کے وجہ سے شورش کاشمیرؔیؒ کو میٹرک کے کمرۂ امتحان میں داخلہ تک نصیب نہیں ہوا۔ جو تعلیم آپ کو مکتب میں حاصل کرنا تھا وہ آپ نے اپنے شوقِ مطالعہ سے پورا کیا۔
شورش کاشمیرؔیؒ نے جہاں معاشی ابتری کے حالت میں آنکھیں کھولے وہیں آپ کی زندگی آفرینش سے تکالیف میں شروع ہوئی۔ آپ مصائب و مشکلات میں پلے، دور تحاریک میں پروان چڑھے، قید و سلاسل کے پابندیاں جھیلے۔ اور بالآخر ان تمام آزمائشوں سے نکل کر ہی آپ ایک کامل و جامع شخصیت بن گئے۔
آغا شورش کاشمیرؔیؒ نے  ؁١٩٣٥ء میں عملی سیاست میں قدم رکھا اور اور قیام پاکستان ؁١٩٤٧ء تک 12 سال آپ نے فرنگی سامراجیت اور برٹش استعماریت کے خلاف مقابلہ کیا، اور تقریباً 10 سال کی زندگی قید و بند کے صعوبتیں برداشت کیں۔ خود فرماتے ہیں کہ آزادی سے پہلے بیسوں عیدیں جیل میں گزری ہیں۔
آپ نے شہید گنج تحریک میں رہبرانہ کردار ادا کیا، اور اسکے بعد مجلس احرار اسلام میں قائدانہ کردار نبھایا۔ اور قیام پاکستان کے بعد بھی آپ ختم نبوت کے تحفظ اور آمریت کے خلاف جدوجہد کے صلے میں قید و سلاسل کے تکالیف اٹھاتے رہے لیکن آوازِ حق سے پیچھے نہیں ہٹے۔ آپ ایک ہفت روزہ بنام ”چٹان“ کے ادارت کررہے تھے اور آپکی وفات تک ہر دورِ حکومت میں یا تو ہفت روزہ ”چٹان“ پر پابندی لگ جاتی یا شورش جی گرفتار کیے جاتے۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے آخر دم تک حق و صداقت کا پرچار کیا اور اپنے قلم کو تلوار بنائے صدائے حق ببانگ دہل پکارتے رہے۔
آپ ایک بلند پایہ مصنف، صاحب طرز ادیب، نقاد، صحافی، انشاء پرداز اور شاعر تھے، آپکی قلم کی روانی اور نکھار بے مثال تھا، آپکی نثر بڑی دلکش اور شاعری بڑی جاندار تھی۔ آپ کی ایک مشہور زمانہ غزل ہے  ؎

ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کاصلہ آہنی زنجیریں تھیں

سرفروشوں کےلیے دار و رسن قائم تھے
خان زادوں کےلیے مفت کی جاگیریں تھیں

بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خونِ احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں

رہنماؤں کےلیے حکمِ زباں بندی تھا
جرمِ بے جرم کی پاداش میں تعزیریں تھیں

جانشینانِ کلایو تھے خداوندِ مجاز
سرِ توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں

... آپ کی نثر و نظم انقلاب، بیداری اور ولولے کا پیام ہے۔ آپ نے سوانح، آپ بیتی، انقلاب، بیداری، شعور جیسے اہم موضوعات پر قلم اٹھایا۔ آپ ایک اعلی قسم کے خطیب بھی تھے، آپ کا نام برصغیر کے مقررین و خطباء کے فہرست میں نمایاں ہے۔ امیر شریعت سیّد عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ کو اردو زبان کا سب سے مقبول اور بڑا خطیب مانا جاتا ہے جبکہ خطابت کے اسی سلسلے اور قافلے کا آخری سالار آغا شورش کاشمیرؔیؒ ہیں۔
آغا صاحب مجلس احرار اسلام کے سابق جنرل سیکرٹری کے عہدے پر بھی رہ چکے ہیں، اور آپ نے مختلف مقامات پر ولولہ انگیز اور انقلابی تقریریں کی ہیں، اور ایک قادر صاحب قلم کے ساتھ ساتھ قادر الکلام ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے۔
آغا شورش کاشمیرؔیؒ صاحب میرے پسندیدہ شخصیات میں سے ایک ہیں، اور مع ہذا راقم کو آغا صاحب سے اس وجہ سے بھی عقیدت و محبت ہے کہ موصوف بھی امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کے بہت بڑے عقیدت مند اور چیلے واقع ہوچکے ہیں، اور ان پر حتی الوسع کام کیا ہے۔ آغا جی کی یہی بات مجھے اپنے طرف کھینچ لائی۔
آغا شورش کاشمیرؔیؒ کے چھوٹے  بھائی جنکا نام یورش کاشمیرؔیؒ تھا، وہ دق کے موذی بیماری میں مبتلا ہوئے تھے لیکن غربت و افلاس کے وجہ سے ان کے علاج کا سامان مہیا نہ ہوسکا جس کے وجہ سے وہ جوانی تک پہنچتے پہنچتے ہی راہ گزیں عالم جاوداں ہوئے۔ شورش صاحب نے تو اپنی تعلیم اپنے مطالعہ کی قوت سے پوری کی لیکن اپنے چھوٹے اور پیارے بھائی کے لاچاری اور بے بسی کے موت سے مفارقتِ دائمہ کا داغ اپنے دل کے وادی سے کبھی مٹا نہ سکے۔
آپ کے قلم سے بیک وقت علمی و تحقیقی اور دلچسپی پر مبنی نگارشات صفحات وقت پر منقش ہوئے ہیں اور ہزاروں قارئین سے داد وصول کرچکے ہیں۔
آغا شورش کاشمیرؔیؒ  ٢٤ اکتوبر ؁١٩٧٥ء کو لاہور میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ مفکر اسلام مولانا مفتی محمود ؒ کی امامت میں آپکی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ رحمہ اللہ تعالی۔

آپ کی چند تصانیف مندرجہ ذیل ہیں:
❶ابوالکلام آزاد، سوانح ❷قلمی چہرے ❸فیضان اقبال ❹گفتنی نا گفتنی ❺پس دیوار زنداں وغیرہ۔

شورؔش مری نوا سے خفا ہے فقیہ شہر
لیکن جو کر رہا ہوں بجا کر رہا ہوں میں

ہمارے بعد کہاں یہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے ہمارا جواب لائے گا
(اختتام)


حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی