جوانوں کو مری آہِ سحر دے؛ رباعی

 

جوانوں کو میری آہ سحر دے


جوانوں کو  مری    آہ    سحر     دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر  دے
خدایا     آرزو      میری    یہی      ہے
مرا    نور     بصیرت    عام      کردے

یہ رباعی مشہور صوفی اور مفکر، شاعر مشرق علامہ محمداقبال ؒ کی ہے اور یہ ان کی مشہور کتاب ”بال جبریل“ سے ماخوذ ہے۔ شاعر مشرق کی شاعری جہاں فلسفہء خودی اور خودشناسی کا پیام ہے، وہیں علامہ اقبال کی شاعری کا مرکزی محور نوجوان نسل میں شعور و بیداری، جذبہء حریت و انقلاب، اور امت کے زبوں حالی پر احساس زیاں اور تازیانۂ عبرت ہے۔ موصوف نے امت مسلمہ اور خصوصاً نوجوان طبقہ کے لاپروائی اور عدم شعور کی درد کی وجہ سے اپنا سینہ چھلنی کیا، اور یہ درد ان کے شاعری میں ظاہر ہوا۔
علامہ اقبال نے اپنی نظموں اور شاعری کے ذریعے نوجوانوں میں شعور و بیداری کے حوالے سے زیادہ زور دیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مستقبل میں قوم و ملک کی بھاگ دوڑ انھیں کے ہاتھوں میں ہے اگر ان میں شعور و آگہی اور احساس ناپید ہوا تو ہماری قوم و ملک کبھی ترقی نہیں کرپائے گا۔ موصوف نے اپنی شاعری میں مستقبل کے نوجوان نسل کو ایک عظیم پیغام چھوڑدیا ہے اور ان کو خودشناسی اور خدا شناسی کی تلقین کی ہے، اور اس کے عدم حصول کے انجام و عبرت سے بھی آگاہ کیا ہے۔

(یہ بھی پڑھیں☜ مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم)
موصوف کی مذکورہ رباعی بھی اس زنجیر کی ایک کڑی ہے جو نوجوان نسل کے لاپروائی و غفلت پر گریۂ یعقوبی کا صورت لیے ہوئی ہے۔ اس رباعی میں اقبال ؒ نوجوان نسل کے بارے میں دربارِ خداوندی میں دست بدعا ہے کہ اللہ میرے نوجوانوں اور میرے شاہینوں کے لاج رکھ لیں۔
جوانوں کو میری آہِ سحر دے:- سحر کی آہ یعنی تہجد کی وقت نکلنی والی فریاد، کیونکہ یہ زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ اے اللہ میرے نوجوانوں کو پُرسوز جذبہ عطاء فرما۔
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے:- شاہین بچے یعنی شہباز کے بچے، یہاں مراد مسلم قوم کی نوجوانان ہیں۔ بال و پر سے مراد قوتِ عمل، شعور و بیداری ہے کہ جس طرح شاہیں کا بچہ بال و پر نکلنے کے بعد اڑنے کے قابل ہوتا ہے اسی طرح میرے نوجوانوں کو جدوجہد، قوت گفتار و کردار و شعور عطا فرما تا کہ وہ کامیاب اور اعلیٰ زندگی گزارنے میں کامیاب ہوجائے! اور پیام حق کو پھیلائے، اور بلندیاں حاصل کرسکے۔

(یہ بھی پڑھیں☜ غزل: لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں)
خدایا آرزو میری یہی ہے:- یعنی میری صرف یہی ایک دعا و آروز ہے جو آپ سے قبول ہونے کی امید رکھتا ہوں۔
مرا نور بصیرت عام کردے:- نور بصیرت سے مراد دانائی، ہوشیاری، بصیرت کی روشنی اور باطن کی نظر مراد ہے۔ یعنی مجھے باطن کی نظر و بصیرت عطا فرما تا کہ میں کسی بھی مسئلے کو انتہائی باریک بینی سے سمجھ سکوں، اور حقیقت کو جان لوں، اور وہ ایمان عطا فرما جو حق و باطل کے درمیان فرق کو انتہائی آسانی سے واضح کرے، اور اس نور بصیرت کو عام کردے تا کہ باقی لوگ بھی اس سے بہرہ ور ہوجائے۔

(اختتام)

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی