میں زنداں میں بلکتی عافیہ ہوں

ڈاکٹر عافیہ صدّیقی/ ف باغی ٹی وی

یہ نالہ و فریاد ہے امت مسلمہ کی بیٹی عافیہ کی، اس عافیہ کی جو ایک جرم ناکرده کی پاداش میں امریکی جہنم نما جیل میں 86 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ عافیہ صدیقی نے حفظ قرآن کے بعد امریکہ کی صف اول کی یونیورسٹی (MIT) سے ڈگری حاصل کی۔ نائن الیون کے بعد وہ پاکستان واپس آکر اپنے والدین کے ساتھ رہنے لگی۔

عافیہ کیس کا مطالعہ کرنے سے پہلے یہ بات اہم ہے کہ عافیہ بالکل بھی امریکی شہری نہیں ہے جیسا کہ کچھ مغرب زدہ افراد نے سمجھ رکھا ہے۔ اور نہ ہی اس نے ان جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن کے الزامات امریکہ نے لگائے اور ہمارے سیدھے سادہ لوگوں نے بغیر تحقیق کے قبول بھی کیے ہیں۔ بات یہ ہے کہ 30 مارچ 2003ء کو عافیہ اپنے بچوں سمیت کراچی سے راوالپنڈی جارہی تھی کہ راستے میں وہ اغوا ہوئی اور پھر پانچ سال تک عافیہ کا کچھ پتہ چلا اور نہ اس کی بچوں کا۔ یہ پانچ سال وہ کہاں اور کس کے قبضے میں تھی؟ یہ وہ سوال ہے جو اس کہانی کا محور ہے اور جو امریکی فریب اور ناٹک کے وجہ سے آنکھوں سے مخفی رہا ہے۔ در حقیقت یہ پانچ سال بھی عافیہ امریکی FBI کے قبضے میں تھی اور بگرام ائیر بیس میں قیدی نمبر 650 کے نام سے بند تھی۔ اس راز کا انکشاف برطانوی خاتون صحافی مریم یوآن ریڈلے نے اسلام آباد میں 6 جولائی 2008ء کو منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ جب اس انکشاف کے ساتھ امریکہ کا مکروہ چہرہ واضح ہوا تو امریکہ نے جو چپ باندھی تھی وہ کھل گئی اور بالاخر امریکہ کے پاس اس اقرار کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ عافیہ کو انھوں نے گرفتار تو کیا ہے لیکن 2008ء میں اور افغانستان سے۔ 

امریکہ کا یہ مؤقف کوئی سلیم العقل فرد تسلیم نہیں کرسکتا کیونکہ جہاں تک امریکہ کا یہ مؤقف حقائق اور واقعاتی شہادتوں کے خلاف ہے، اگر بالفرض اس کو مان بھی لیا جائے تو پھر عافیہ کو گرفتار کیوں کیا؟ اس بارے امریکہ کا ایک مؤقف نہیں بلکہ عافیہ کے گرفتاری کے بارے میں امریکہ کا مؤقف متزلزل اور تضادات کا شکار رہا ہے۔ کبھی کہا گیا کہ عافیہ پر غزنی کے ایک دکاندار کو شک گزرا تو گرفتار ہوئی، تو کبھی کہا گیا کہ وہ مسجد میں خودکش حملہ کرنے آئی تھی اور لوگوں نے پولیس کو بلا لیا، تو کبھی کہا گیا کہ وہ ایک مسجد کے سامنے نقشہ پھیلائی بیٹھی تھی، وہاں کی زبان نہیں جانتی تھی، اور اس پر لوگوں کو شک ہوا اور یہ گرفتار ہوئی۔ حتی کہ مسجد کے سامنے سے گرفتار ہونے کے دعوے میں بھی متضاد اقوال سامنے آئے ہیں، جتنا منہ اتنی بات۔

جس الزام کے تحت امریکہ نے عافیہ کو گرفتار کیا تھا وہ یہ تھا کہ عافیہ القاعدہ کے مرکزی قیادت کے ساتھ وابستہ القاعدہ لیڈی ہے، اس کے قبضے سے دو پونڈ مہلک زہر برآمد ہوا، کچھ ڈاکومنٹس اور نوٹس دستیاب ہوئے ہیں جن میں دھماکہ خیز مواد تیار کرنے کے طریقے لکھے گئے ہیں۔ گرفتاری کے بعد امریکہ کا مؤقف تھا کہ عافیہ کی گرفتاری امریکہ کے لیے ایک اہم حیثیت رکھتی تھی، اور وہ سات خطرناک ترین دہشتگردوں میں تھی، ان کو گرفتار کرکے امریکہ نے گزشتہ پانچ سالوں میں سب سے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ امریکہ کا یہ مؤقف سمجھ سے بالاتر ہے، بالفرض اگر عافیہ القاعدہ کے ساتھی تھی تو کیا وہ اتنے سادہ تھے کہ ایک اعلی تعلیم یافتہ عورت کو اس طرح حملہ کےلیے (بقول امریکہ) کے بھیجے جس پر ایک دکاندار کو بھی شک گزرے؟ 

لیکن امریکہ کے تضادات کا یہ سلسلہ یہاں نہیں رکتا، گرفتاری کے بعد جب عافیہ کو 5 اگست 2008ء کو نیویارک کے وفاقی عدالت میں پیش کیا تو وہاں القاعدہ لیڈی، خودکش حملہ آور، القاعدہ کے ماتا ہری، القاعدہ کے لیے دھماکہ خیز اور مہلک وائرس بنانے والی وغیرہ جیسے الزامات کا بالکل ذکر بھی نہیں تھا۔ بلکہ وہاں امریکہ نے ایک الگ دعویٰ کیا کہ بگرام ائیر بیس میں عافیہ کے تفتیش کے لیے آئے امریکی فوجی اہلکار سے عافیہ نے اس کا رائفل چھین کر اس پر فائر کیا، اس نے امریکی شہری کو قتل کرنے کی کوشش کی جس سے وہ بچ گیا، اور گولی دیوار پر لگی جہاں سوراخ اب بھی نظر آرہا ہے، جواباً امریکی فوجی نے پستول سے دو گولیاں چلائے جو عافیہ کے پیٹ میں لگے۔

جب عدالت کا مقدمہ اس دعوے کے تحت چلا تو پھر امریکہ کا جھوٹ واضح ہوگیا، کہ وہ رائفل تو سرے سے چلا ہی نہیں ہے، اس کے بیرل میں گولی اور بارود کا کوئی سراغ نہیں، نہ اس پر عافیہ کا فنگر پرنٹ ہے۔ اور دیوار میں جو سوراخ دکھتا ہے وہ ایک ویڈیو کے ذریعے جھوٹا ثابت ہوا کہ وہ تو اس واقعے سے بہت پہلے یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ اور ساتھ میں افغان پولیس اور غزنی کے گورنر نے بھی اس مؤقف کی تردید کردی۔ سوال یہ ہے کہ ایک نہتی اور کمزور خاتون اتنی طاقتور کیسے ہوئی کہ وہ باقاعدہ ایک تربیت یافتہ فوجی کا رائفل چھین کر اس پر فائر کرے! اور رائفل بھی وہ جس کا وزن اتنا زیادہ ہے کہ قید و بند کے تشدد زدہ کمزور خاتون سے اس کا اٹھایا جانا، اور پھر لاک کھول کر نشانے پر لگانا اور فائر کرنا عقل سلیم کے لیے ماننا کم از کم ممکن نہیں۔ جب عافیہ امریکہ کو القاعدہ کی حمایت کی جرم میں مطلوب تھی تو مقدمہ کے وقت ان الزامات کا ذکر کیوں نہیں تھا؟ جب ماہرین نے رائفل کے الزام کو جھوٹا ثابت کیا تو امریکہ نے اسے جھوٹا تسلیم کیوں نہیں کیا؟

لیکن یہاں تو امریکہ کو صرف اپنی فوجی اہلکار پر یقین ہے، ساری شواہد و ماہرین اگر چہ رائفل کے کہانی کو جھوٹی ثابت کرچکے ہیں لیکن امریکی فوجی کہتا ہے تو عافیہ نے ضرور گولی چلائی ہوگی!

امریکی ماہرین نے بھی اس کیس کو مبنی برظلم قرار دیا تھا کہ عافیہ مظلوم اور بے گناہ ہے۔ سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک کہتا ہے کہ ”عافیہ صدیقی کا کیس میرے مشاہدے کے مطابق اب تک کا بدترین کیس ہے“۔ اسی طرح امریکی صحافی پیٹرا بارتوشےویچ کا کہنا ہے کہ ”میں نے امریکی مؤقف کی تفصیل پڑھتے ہی جان لیا تھا کہ عافیہ صدیقی بے گناہ ہے۔ امریکن شہریوں کے اس اقرار کے باوجود امریکہ نے ان کو بھی نظر انداز کیا۔

امریکی قانون ہے کہ کسی بھی خاتون کی برہنہ تلاشی (سٹرپ سرچ) نہیں لی جاسکتی، لیکن بایں ہمہ کہ عافیہ پہلے سے ان کے ساتھ قید میں موجود تھی اور بار بار انھیں تلاشی اور جسمانی و ذہنی تشدد سے گزارا گیا تھا لیکن وکیل سے ملنے کے لیے باقی تکالیف کے علاوہ اسے اس اذیت ناک عمل (سٹرپ سرچ) سے بھی گزارا جاتا تھا۔ اس وقت مغرب کا انسانی ہمدردی اور حقوق نسواں کے قوانین شاید وائٹ ہاؤس کا چکر لگا رہے تھے! 

امریکہ نے سارے حقائق و شواہد، انسانی حقوق اور مساوات کے اقدار کو نظر انداز کرتے ہوئے انتہائی چالاکی، تعصب، نفرت اور نسل پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عافیہ پر فرد جرم عائد کیا اور اسے 86 سال قید کی سزا سنائی۔ دنیا کو انسانیت کا درس دینے والے امریکہ کا انسانی حقوق و ہمدردی کا قانون صرف اتنا ہے کہ ایک امریکی کو قتل کرنے کی کوشش پر 86 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے لیکن ایک غیر امریکی خاتون کو شک یا جھوٹ کی بنیاد پر گولی سے بھی داغا جاسکتا ہے، اور اس پر مستزاد اس پر قید و بند کی صعوبتیں، جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد بھی روا رکھا جاسکتا ہے۔ عافیہ اگر مجرم تھی تو حقائق و شواہد امریکہ پیش کیوں نہیں کرتا! امریکی قانون دان ایلین شارپ ویٹفیلڈ کہتا ہے کہ ”یہ سب جھوٹ ہے، عافیہ صدیقی کے خلاف اگر کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں“ (Put up or shut up)۔ شواہد و حقائق کے تحت ان کے ساتھ قانون کے تحت عادلانہ کاروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ لیکن یہ سارے الزامات ہیں جو امریکہ نے لگائے، اور ساری دنیا نے قبول کیے اور عافیہ پر ہونے والے امریکی مظالم پر خاموش تماشائی بنی، کیونکہ عافیہ امریکی اور مغربی شہری نہیں ہے ورنہ دنیا نے ایک کہرام مچانا تھا۔ در حقیقت عافیہ کی مظلومیت پر خاموش صرف دو افراد ہی رہ سکتے ہیں: ایک وہ جو اس کیس سے بالکل واقف ہی نہ ہو اور وہ عافیہ کو دہشتگرد سمجھتا رہے۔ دوم وہ جو اس کیس کی تفصیلات و جزئیات سے باخبر تو ہو لیکن بددیانتی کرتا ہو۔ 

اب امریکہ کا جھوٹ ساری دنیا کے سامنے واضح ہوچکا ہے، لہذا اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور دنیا بھر کی انسانی حقوق کے تنظیموں اور دنیا کے تمام انسانوں کو امریکہ کے اس ظلم کے خلاف آگے آنا چاہیے اور اس جھوٹ پر لب کھولنا چاہیے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس معاملے میں ہمارے اپنے پاکستان کی کارگردگی بھی صفر ہے، دنیا بھر کی انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی تنظیمیں خاموش ہیں، کیونکہ عافیہ کوئی لبرل خاتون نہیں ہے نا! ورنہ کب سے دنیا نے ایک شور برپا کرنا تھا۔ اب وقت ہوا چاہتا ہے کہ پاکستانی عوام، حکومت اور ادارے کھل کر امریکہ کے مظالم کی مخالفت کرے اور عافیہ کی رہائی کا سنجیدہ مطالبہ کرے، ورنہ ہم سب مجرم ہونگے۔

بشکریہ: باغی ٹی وی

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی