شیخ الہند لائبریری (کبل سوات) کے پیج پر یہ تصاویر دیکھتے ہی یک گونہ مسرت کی لہر سی دل میں دوڑ گئی، یاد رفتہ دل کے دریچوں پر دستک دینے آئی۔
ہائے پیارے بچپن! کہاں ڈھونڈ کر لاؤں تمہیں! آسمان کی بلندیوں میں! سمندر کی گہرائیوں میں! پہاڑوں کے اناؤں میں! یا دل کی ویرانوں میں؟
کیا کہے! زندگی اپنی تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، زندگی کو نہ کسی کی خوشی کی پروا ہے نہ کسی کی غمی کی، اور اس تیزی سے گزر رہی ہے کہ انسان کو محسوس بھی نہیں ہوتا! گھنٹوں پر دن، دنوں پر ہفتے، ہفتوں پر مہینے اور مہینوں پر پلک جھپکتے کئی سال گزرتے ہیں، پر آدمی کو ایسا لگتا ہے جیسا کہ یہ ایک دن کی کہانی ہو۔ زندگی کی اس تیز رفتاری سے آگے جانے کے بعد اگر کوئی چیز پیچھے رہتی ہے تو وہ صرف اور صرف یادیں ہیں۔
تنہائی میں جو کسی کو رُلائے یا ہنسائے! یہی یادیں ہی ہیں! کسی کے نصیب میں ہنسانے والی یادیں ہیں تو کسی کے نصیب میں رلانے والی یادوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔
ان یادوں میں انسان کے بچپن کی یادیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں اور ان میں خصوصی طور سکول/مکتب کے یادیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں۔ سکول کی یادیں بہت دلچسپ تھیں اور ہمارے سکول کی تو بات اور تھی! نہ کمرہ تھا، نہ بیگ، اور نہ ہی بیٹھنے کےلیے کوئی چٹائی یا کارپٹ!
اماں کے ہاتھوں گھر کے ناقابل استعمال کپڑوں سے بنا ہوا بستہ، آٹے کے خالی بوری اس بستے میں کتابوں کے برابر ایک طرف رکھتے اور دوسری طرف اماں کے ہاتھ کا پراٹھا رکھتے جو بریک کے وقت کھاتے، ہنستے مسکراتے گھر سے نکلتے، گھر سے نکلتے ہی جگری دوستوں سے بے تکلفانہ انداز میں مل کر سکول کے طرف بھاگ ڈورتے۔
سکول کی درس گاہ کیا تھی! بس پرانے زمانوں والی یاد تازہ کرنے والی، بغیر چٹائی کا فرش، بڑے بڑے لکڑیوں اور اس پر درختوں کے پتوں سے بچھائی ہوئی چھت! اپنے بستے سے وہ خالی بوری نکال کر بچھاتے اور بیٹھ جاتے۔ لیکن یقین کریں جو سکون اس وقت تھا وہ اب اس تیز رفتار ترقی یافتہ دور میں نہیں، جو قہقہے اس وقت تھے وہ اب لاکھوں میں بھی خریدے نہیں جاتے۔ جب پرائمری سے نکل کر ہائی سکول چلے گئے تو ہمارے سکول جاتے ہوئے راستے میں ایک ندی تھی جو کھیتوں کی طرف گئی تھی، سکول جاتے وقت راستے کے اس ندی میں ہم کاغذی کشتیوں کا کھیل کھیلتے تھے، اور سب اپنی اپنی کشتیاں ایک ساتھ پانی کی لہروں میں چھوڑتے، جو ہی کسی کی کشتی زیادہ دور چلی جاتی وہی جیت جاتا۔
اسی طرح سکول کے فارغ اوقات میں کاغذ سے فولڈنگ والا پرانا فون بنانا، جعلی روپے بنانا، ماچس کے ڈبوں سے تار والا فون بنانا، یہ سب بچپن اور سکول کی یادوں کا ایک سلسلہ ہے جو اگر ہر وقت یاد نہیں رہتا تو یاد دلانے پر اچانک ایسی مفصل یاد آتا ہے جیسا کہ یہ کل کی کہانی ہو۔
بچپن کے زمانے میں ایک سکون تھا، خوشی تھی، بے لوث محبت تھی، صداقت تھی، اخوت اور بھائی چارہ تھا، اگر چہ مال و دولت کی اتنی فراوانی نہیں تھی۔ اور آج مال و دولت زیادہ ہے، بینک بیلنس کی کمی نہیں، ترقی اور ٹیکنالوجی کی بھی فراوانی ہے، لیکن وہ سکون، وہ ایک دوسرے سے بےلوث محبت اب مگر نہیں ہے، ہر کوئی مال و دولت کے حرص میں دوسرے کے خون کا پیاسا ہے۔
پھر تو ہمارا وہ سکول بھی نیا تعمیر ہوا، اور ہم ہائی سکول سے بھی فارغ ہوئے لیکن وہ سکون اور خوشی پھر کبھی لوٹ نہ آئی۔ اور وہ دوست و احباب بھی پھر اس بے تکلفی کے ساتھ گلے نہ ملے، وہ تو کہیں دور چلے گئے ہیں پردیس میں، بس صرف یادیں ہی یادیں ہیں۔ بقول نقش لائل پوری، ؏؎
یہ انجمن، یہ قہقہے، یہ مہوشوں کی بھیڑ
پھر بھی اداس، پھر بھی اکیلی ہے زندگی