حضرت شیخ الہندؒ 1268ھ بمطابق 1851ش کو بریلی میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد گرامی مولانا ذوالفقارعلی صاحبؒ محکمہ تعلیم میں ملازمت کی وجہ سے مقیم تھے۔
حضرت شیخ الہندؒ نے چھ سال کی عمر میں تعلیمی سلسلے کا آغاز کیا، قرآن مجید میاں جی بنگلوریؒ اور میاں جی عبداللطیف سے پڑھا، فارسی اور عربی کی بعض ابتدائی کتابیں اپنے چچا مولانا مہتاب علی صاحبؒ سے پڑھیں۔ اور بعد ازاں دیوبند میں علمی زندگی کی ابتدا کی اور 1870 میں صحاح ستہ اور دیگر کتب مولانا محمد قاسم نانوتویؒ سے پڑھے۔ مولانا محمدقاسم نانوتویؒ میرٹھ میں بسلسلۂ ملازمت مقیم تھے، اس لئے دہلی سے وہاں آتے جاتے، حضرت شیخ الہندؒ بھی آپ کے ساتھ سفر و حضر میں ساتھ ہوتے اور اسی طرح تعلیمی سلسلہ جاری تھا، اس وجہ سے آپ کو استاذ محترم کی ایسی عنایتیں اور شفقتیں نصیب ہوئے جن کے بدولت حضرتؒ اپنے تمام ہم عصروں پر سبقت اور فضیلت حاصل کرگئے۔ سن 1290ھ بمطابق 1873ء کو دارالعلوم کی جلسہ دستاربندی میں اکابر علماء و مشائخ کی موجودگی میں آپ کی دستاربندی ہوئی اور اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں آپ بطور مدرس مقرر ہوئے۔
تدریسی زندگی کے آغاز کے دوران آپ نے نہ صرف اپنے نابغۂ روزگار استاذ مولانا محمدقاسم نانوتویؒ کی علمی و روحانی فیض کو جاری رکھا بلکہ استاذ کی جلائے ہوئے شمع حریت کی آگ کو بھی اپنے سینہ میں سلگالی تھی۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ "قاسم" اور "محمود" یک جان دو قالب بن گئے۔ جو ”قاسم“ کا سوچ تھا وہ ”محمود“ کا نظریہ تھا، اور جو منصوبہ ”محمود“ بناتے وہ ”قاسم“ کی فکر کی ترجمانی ہوتی۔
Shaikh-ul-hind /شیخ الہند |
قریباً چالیس سال تک آپؒ نے دارالعلوم دیوبند میں سینکڑوں تشنگان و طالبان علوم نبوتﷺ کو سیراب فرمایا اور تا حیات دارالعلوم دیوبند کے عظیم و بلند پایہ عہدۂ صدارت کے خدمات کو بھی احسن طریقے سے نبھایا۔ آپ کی درس کی ایک اعلی شان تھی، کسی مسئلے پر تحقیقی گفتگو فرماتے تو سامعین انگشت بدنداں رہ جاتے۔ علمی و عملی تبحر کے ساتھ آپ راہ سلوک و تصوف کے بھی خضرِ راہ تھے، آپؒ نے اپنی زندگی کی پہلی حج کی سعادت اپنے در مایہ ناز استاذ مولانا نانوتویؒ کے ہمراہی میں حاصل کی، اور اسی سفر حج میں سیدالطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ سے بیعت و خلافت سے بھی مشرف ہوئے۔
علمی میدان اور اشاعت علوم نبوت کے میدان کو چار چاند لگانے کے ساتھ حضرت شیخ الہندؒ احوال زمانہ، سیاسی کشمکش سے بے خبر نہیں تھے، مسند تعلیم پہ بیٹھ کر آپ نے تمام عالم کا نقشہ اپنے ذہن میں کھینچا تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دیوبند کے چٹائی پر بیٹھنے والا یہ معمر و ضعیف البدن شخصیت کسی عالمی تحریک کی سربراہی بھی کرسکتی ہے؟ اور اس حکومت کی بنیاد بھی ہلا سکتا ہے جس حکومت میں آفتاب بھی غروب نہیں ہوتا۔ حضرت شیخ الہندؒ نے خلافت عثمانیہ پر فرنگی یلغار، بلقان اور طرابلس کے سوہان روح داستانوں اور جزیرة العرب پر فرنگی پرچھائیوں کی کرب و حزن میں راتیں بسر کی تھیں۔ بالآخر حضرت کی صبر و شکیب کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور آپ نے برطانوی سامراج کے خلاف اور مسلمانوں کو نجات دلانے کے خاطر ایک عالمی تحریک کا آغاز فرمایا جو بعد میں ”تحریک شیخ الہندؒ“ یا ”تحریک ریشمی رومال“ کے نام سے موسوم ہوئی۔
تحریک ریشمی رومال کی روداد تفصیل و تحقیق طلب کام ہے، تاہم اتنا سمجھ لیجیے کہ حضرت شیخ الہندؒ اپنی تحریک میں کس قدر آگے گئے تھے؟ اور کون کونسے منصوبے حضرت نے بنائے تھے؟ اور کتنے مراحل طے کرچکے تھے؟ اور منزل کامیابی آپ سے کتنی دور تھی؟ یہ پڑھنے سے متعلق ہیں۔ اور پھر آپ حضرت شیخ الہندؒ کی بصیرت و بصارت اور تحریکی سربراہی کا اقرار کرکے نہ رہ سکو گے۔
تبھی تو مولانا محمدعلی جوہرؒ فرماتے تھے کہ:
”حضرت شیخ الہندؒ تو اس تحریک میں ایسے بلند مقام پر پہنچ گئے تھے کہ ہمارے اذہان و خیالات بھی وہاں تک نہیں پہنچے۔“
؎ ان کی تدبیر جہاں بانی سے ڈرتا تھا زوال
حضرت شیخ الہندؒ کی اہلیہ کے وفات کے بعد آپ امروہہ، بجنور، کلکتہ وغیرہ کو مختلف اجلاسات کےلیے تشریف لے گئے، خلافت کمیٹی کے پرزور مطالبہ پر آپ علیگڑھ چلے گئے اور وہاں لوگوں کے مطالبہ پر ایک آزاد قومی یونیورسٹی (جامعہ ملیہ اسلامیہ) کی بنیاد ڈالی۔ علیگڑھ میں آپؒ نے عبدالمجید خواجہ کے کوٹھی پر قیام فرمایا تھا، اگر چہ آپ بیمار تھے لیکن یہ کہہ کر اجلاس میں شریک ہوئے کہ:
”اگر میری صدارت سے انگریز کو تکلیف ہوگی تو میں اس میں ضرور شریک ہوں گا“۔
جمعیت علماء ہند کے اجلاس منعقدہ دہلی میں آپ کو مستقل صدارت کا عہدہ تفویض کیا گیا، اگر چہ دہلی کے اجلاس میں آپ بیماری کے شدت سے شرکت نہ کرسکے اور آپ کی طرف سے خطبۂ صدارت پڑھا گیا۔ دہلی میں حضرت نے ڈاکٹر مختار انصاری کے گھر پر قیام کیا تھا۔
علیگڑھ کے اجلاس میں شرکت سے ہی مرض میں شدت آئی تھی کہ دہلی کا سفر اختیار کرنے سے تکلیف اور زیادہ بڑھ گئی۔ ڈاکٹر انصاری نے نہایت توجہ سے علاج کیا لیکن مرض موت کا علاج ممکن نہیں۔
؎ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
حالت مرض میں حضرت کی صحت مزید ابتر ہورہی تھی، ہر وقت زبان پر ذکراللہ کا مشغلہ تھا، باتیں بہت کم کرتے تھے۔ 30 نومبر کو حضرت کی حالت بہت متغیر ہوئی، دنیا سے غافل ہوگئے، تنفس طویل اور غیرطبعی ہوگیا۔ چارپائی کے گرد متعلقین و تلامذہ خاموش و افسردہ کھڑے تھے، انقطاع عن الدنیا کا گمان غالب ہوگیا، مولانا مفتی کفایت اللہ صاحبؒ اور مولانا محمدالیاس دہلویؒ نے قریب کھڑے سورة یاسین شروع کی، حضرت نے اپنے بدن کو حرکت دے کر سیدھا کیا اور جب سورة یاسین آخری آیت پر پہنچ گئی تو حضرت نے تصدیق قلبی کے تائید کےلیے زبان کو حرکت دی اور آخری لفظ پر قبلہ رخ ہو کر ہمیشہ کے لیے آنکھ بند کرلی، اور تمام عالم کو یتیم و بے کس اور سوگوار چھوڑ کر رفیق اعلی سے جا ملے۔ اناللہ واناالیہ راجعون
بھلا نہ سکیں گے اہل زمانہ صدیوں تک
ترے وفا کے ترے فکر و فن کے افسانے
٭بسلسلہ 30 نومبر یوم وفات
(یہ اقتباس راقم کے ایک غیر شائع شدہ مضمون بعنوان ”حضرت شیخ الہندؒ اور تحریک ریشمی رومال“ سے لیا گیا ہے۔)