ام المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

نام: عائشہ،

والد: عبداللّہ ابوبکر الصدیق ؓ

والدہ: زینب ام رومانؓ

لقب: حُمَیرا، صدیقہ، عفیفہ،

خطاب: ام المؤمنین، حضور انورﷺ نے بنت الصدیقؓ سے خطاب فرمایا۔

کنیت: ام عبداللّہ۔  عبداللّہ حضرت عائشہؓ کا بھانجا یعنی عائشہؓ کے بہن اسماءؓ کے صاحبزادہ ہے، جو زیادہ تر اپنے باپ کی نسبت عبداللّہ بن زبیرؓ کے نام سے مشہور ہیں، حضرت عائشہؓ کی کنیت بھی اسی عبداللّہ کی نام سے ام عبداللّہ ہے چونکہ عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہے چونکہ آپ رضی اللہ عنہا صاحب اولاد نہ تھیں اس لئے کوئی کنیت بھی نہ تھی۔ آپ رضی اللہ عنہا ایک دفعہ آنحضرتﷺ سے حسرت کی ساتھ عرض پرداز ہوئیں کہ اور بیبیوں نے تو اپنی سابق اولادوں کے نام پر اپنی اپنی کنیت رکھ لی ہے میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟ حضورﷺ نے فرمایا: اپنے بھانجے عبداللّہ کے پر“۔ چنانچہ اسی دن سے ام عبداللّہ حضرت عائشہؓ کی کنیت قرار پائی۔  


سلسلہ نسب:

حضرت عائشہؓ باپ کی طرف سے قریشیہ تیمیہ اور ماں کی طرف سے کنانیہ ہے، ام المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہؓ کا نسب باپ کی طرف سے ساتویں پشت پر جا کر رسول اللّہﷺ کے نسب سے ملتا ہے اور ماں کی طرف سے بارہویں پشت پر ملتا ہے۔


ولادت اور مختصر حالات:

حضرت عائشہؓ کی سن ولادت سے تاریخ و سیر کی عام کتابیں خاموش ہیں، تاہم یہ متفقہ طور مسلم ہے کہ حضرت عائشہؓ ہجرت سے تین برس پہلے 6 برس کی عمر میں بیاہی گئیں۔ شوال سن 1ھ میں 9 برس کی تھیں کہ رخصتی ہوئی۔ 18 سال کی عمر میں یعنی ربیع الاول 11ھ میں بیوہ ہوئیں، اس لحاظ سے ان کی ولادت کی صحیح تاریخ نبوت کے پانچويں سال کا آخری حصہ ہوگا، یعنی شوال 9 قبل ہجرت مطابق 614ء ہے۔

حضرت عائشہؓ 18 سال کی عمر میں بیوہ ہوئی اور سن 13ھ میں والد گرامی حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی وفات پاگئے۔ حضرت اماں جانؓ کو اتنی کم عمری میں بیوگی کی ساتھ بے پدری اور یتیمی کا داغ بھی اٹھانا پڑا۔ 

حضرت عائشہؓ اسلام کے ان برگزیدہ لوگوں میں ہیں، جن کے کانوں نے کبھی کفر و شرک کی آواز نہیں سنی، خود حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: کہ جب سے میں نے اپنے والدین کو پہچانا ان کو مسلمان پایا۔


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بچپن سے نہایت ذہین و فطین، عمدہ ذکاوت اور بہترین قوت حافظہ کی مالکہ تھیں۔ فطری حاضر جوابی، مذہبی واقفیت، ذکاوت ذہن، اور سرعت فہم، حضرت اماں جانؓ کا خاص وصف تھا، جن کا مشاہدہ انکی متعدد واقعات سے ہوتا ہے، حضرت امام زہری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علم کا تمام امہات المؤمنین اور تمام عورتوں کے علم کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو حضرت عائشہؓ کا علم سب سے بڑا رہے گا۔

…… بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان سے مسائل وغیرہ پوچھا کرتے تھے، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہؓ کو جب کسی مسئلہ میں اشکال پیش آتا تو حضرت عائشہؓ سے دریافت کرتے آپ کے یہاں ضرور اس کے متعلق کوئی علم دستیاب ہوتا۔ 

فصاحت و بلاغت کا یہ عالم تھا کہ حضرت معاویہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کسی خطیب کو حضرت عائشہ سے زیادہ فصیح و بلیغ نہیں دیکھا۔

عرب کی تاریخ اور واقعات ازبر تھے، اشعار بکثرت زبانی یاد تھے، جب کوئی بات پیش آتی تو کوئی شعر ضرور سنادیتیں۔


آپ رضی اللہ عنہا اکثر دن کو روزے سے ہوتیں اور رات نوافل ادا کرتے مصلے پر گزرتی، زہد و ورع، تقویٰ و پرہیزگاری میں وہ اپنی مثال آپ تھیں۔ اطاعت، عبادت اور ریاضت کا جوہر اُن کی سرشت میں شامل تھا۔ انہی فضائل، اور کمالات کی بناء پر آنحضرتﷺ سب سے زیادہ حضرت عائشہؓ سے محبت رکھتے تھے، اللّہ تعالی نے اول یہ کمالات اور محاسن عائشہ صدیقہؓ کی فطرت میں ودیعت رکھے اور پھر اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ اس کو اپنی زوجیت میں لیں تا کہ آپ کی صحبت اور تربیت سے وہ فطری کمالات ظہور میں آئیں اور انکے علم و فضل سے دنیا استفادہ کرے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اکابر صحابہؓ حضرت صدیقہؓ سے مستفید ہوئے، سیّدنا عمرفاروق اعظمؓ، عبداللّہ بن عمرؓ، ابوہریرہؓ، ابوموسیٰ اشعریؓ، عبداللّہ بن عباسؓ وغیرہم نے آپ رضی اللّہ عنھا سے روایت کی ہے۔ اکابر تابعین سعید بن مسیبؒ، عَمرو بن میمونؒ، علقمہ بن قیسؒ، مسروقؒ، عبداللّہ بن حکیمؒ، اسود بن یزیدؒ، ابو مسلمہ بن عبدالرحمانؒ وغیرہم نے آپ رضی اللّہ عنہا کی شاگردی کی۔


…………کیا ان حالات اور واقعات کے بعد بھی کسی طاعن اور معترض کیلئے یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ (معاذاللّہ) یہ نکاح کسی نفسانی خواہش سے کیا گیا؟؟؟

خواہش نفسانی سے نہیں بلکہ حکم ربّانی اور وحی آسمانی سے یہ نکاح کیا گیا۔ 


آخر وقت میں حضوراکرمﷺ حضرت اماں جانؓ ہی کی پاس تھے۔ اس خواہش کا سبب شاید عام لوگ یہ سمجھے کہ نبیﷺ نے یہ عائشہؓ کی محبت کی وجہ سے کیا۔ لیکن جیسا کہ گزرچکا کہ حضرت عائشہؓ کو اللّہ تعالی نے فطری کمال، عقل، قوت حافظہ، سرعتِ فہم، اور اجتہاد فکر عطا فرمایا تھا، عجب نہیں کہ آنحضرتﷺ کا مقصود یہ ہو کہ آپﷺ کے آخری اقوال و افعال کا بھی ایک ایک حرف دنیا میں محفوظ رہے، چنانچہ آپﷺ کی وفات کے متعلق اکثر صحیح حالات و روایات حضرت امی عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کے ذریعہ امت تک پہنچے۔ 


حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ آپ کو سب سے زیادہ کون محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا: عائشہؓ۔ 


نکاح:

ہجرت سے 3 سال پہلے ماہ شوال سن 10 نبوی میں سید المرسلینﷺ سے نکاح ہوا، حضرت عائشہؓ کی عمر اس وقت چھ (6) برس کی تھی۔ ہجرت کے سات آٹھ مہینہ بعد شوال ہی کے مہینے میں رخصتی اور عروسی کی رسم ادا ہوئی اس وقت اماں جانؓ کی عمر مبارک 9 سال اور کچھ ماہ کی تھی۔ سیدہ عائشہ 9 سال آپﷺ کی زوجیت میں رہی۔ 


فضائل:

سیّدہ عائشہؓ کے علاوہ کسی کنواری خاتون سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے شادی نہیں کی۔ ابھی ان کا بچپن ہی تھا کہ جبریل علیہ السلام نے ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر ان کی تصویر رسول اللہﷺ کو دکھلائی اور بتایا کہ یہ آپﷺ کی دنیا وآخرت میں رفیقۂ حیات ہے۔


حضرت عائشہؓ راوی ہے کہ ایک روز رسول اللّہﷺ نے فرمایا: ”اے عائشہ یہ جبرئیل ہیں، تم کو سلام کہتے ہیں، میں نے کہا: وعلیہ السلام ورحمة اللّہ وبرکاتہ، اور عرض کیا: یارسول اللّہﷺ آپ دیکھتے ہیں اور میں نہیں دیکھتی۔ 


ابو موسیٰ اشعریؓ راوی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

”مردوں میں سے بہت لوگ کمال کو پہنچے، مگر عورتوں میں سے سوائے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجۀ فرعون کے کوئی عورت کمال کو نہیں پہنچی اور عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسا کہ ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر۔


حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں فخر نہیں کرتی بلکہ بطور اللّہﷻ کے نعمت کے کہتی ہوں کہ اللہ نے دنیا میں 10 خصلیتیں مجھ کو ایسی عطاء کی ہیں جو میرے سوا کسی کو نہیں ملیں۔

(1) میرے سوا کسی باکرہ (کنواری) سے آپﷺ نے نکاح نہیں فرمایا۔ 

(2) نکاح سے پیشتر فرشتہ میری تصویر لے کر نازل ہوا اور آپﷺ کو دکھا کر کہا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں، اللّہ کا حکم ہے کہ آپ ان سے نکاح کریں۔ 

(3) رسول اللّہﷺ سب سے زیادہ مجھ سے محبت فرماتے تھے۔

(4) اور جو شخص آپﷺ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب تھا (سیّدنا ابوبکر صدیق ؓ)میں اس کی بیٹی ہوں۔ 

(5) آسمان سے میری برأت میں متعدد آیتیں نازل ہوئیں اور میں طیبہ اور پاکیزہ پیدا کی گئی اور طیب اور پاکیزہ (یعنی حضورﷺ)  کے پاس ہوں اور اللّہﷻ نے مجھ سے مغفرت اور رزق کریم کا وعدہ فرمایا۔ 

(6) میں نے جبرئیل کو دیکھا، میرے سوا آپﷺ کی ازواج میں سے کسی نے جبرئیل کو نہیں دیکھا۔ 

(7) جبرئیل آپﷺ پر وحی لے کر آتے تھے اور میں آپﷺ کے پاس ایک لحاف میں ہوتی تھی۔ میرے سوا اور کہیں اس طرح وحی نازل نہیں ہوئی۔ 

(8) میری باری کی دو دن اور دو رات تھے، اور باقی ازواج کی باری ایک دن اور ایک رات تھی، (ایک دن اور رات حضرت صدیقہؓ کی باری کا تھا اور دوسرا دن حضرت سودہؓ کی باری کا تھا جو انہوں نے سن رسیدہ ہوجانے کی وجہ سے حضرت عائشہؓ کو ہبہ کردیا تھا) 

(9) انتقال کی وقت آقائے نامدارﷺ کا سر مبارک میری گود میں تھا۔

(10) وفات کے بعد آپﷺ میرے حجرے میں مدفون ہوئے۔ 


حضرت عائشہ اور احادیث نبوی:

سیدہ عائشہؓ کا حافظہ بہت قوی تھا جس کی وجہ سے وہ حدیث نبوی کے حوالے سے صحابہ کرامؓ کےلیے بڑا اہم مرجع بن چکی تھیں۔ حضرت عائشہؓ حدیث حفظ کرنے اور فتویٰ دینے کے اعتبار سے صحابہ کرامؓ سے بڑھ کر تھیں۔ سیدہ عائشہؓ نے دو ہزار دو سو دس (2210) احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی۔

دور نبویﷺ کی کوئی خاتون ایسی نہیں جس نے سیدہ عائشہؓ سے زیادہ رسول اللہﷺ سے احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ہو۔  

سیّدہ عائشہؓ کی روایات میں 174 احادیث ایسی مروی ہیں جو بخاری ومسلم میں ہیں۔


وفات:

سن 58 ہجری کے ماہ رمضان میں حضرت عائشہؓ بیمار ہوئیں اور انہوں نے وصیت کی کہ انہیں امہات المومنین اور رسول اللہﷺ کے اہل بیت کے پہلو میں جنت البقیع میں دفن کیا جائے۔ ماہ رمضان کی 17 تاریخ منگل کی رات نماز وتر کی ادائیگی کے بعد اماں جانؓ اس جہاں سے اس جہاں کی طرف کوچ فرما گئیں جس کی خواہش سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”اللھم الرفیق الاعلی“ کے الفاظ سے فرمائی۔ وفات کے وقت ان کی عمر 66 برس تھی، حضرت سیّدنا ابوہریرہؓ نے جو ان دنوں مدینہ طیبہ کے قائم مقام حاکم تھے، آپ کا جنازہ پڑھایا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے بھانجوں اور بھتیجوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری زوجہ اور امت محمدیہ کے مومنین کی ماں کو قبر کی پاتال میں اتارا۔


زندگانی  تھی  تیری  مہتاب  سے  تابندہ  تر

خوب تر تھا صبح کے تارے سےبھی تیرا سفر 

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی