محبت کا ایک فقیر شاعر، ساغر صدّیقی

 

ساغر صدّیقی/ فوٹو گوگل

حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغرؔ


19 جولائی محبت کے ایک فقیر شاعر ساغر صدّیقی کا یوم وفات؛


ساغر صدیقی کا اصل نام محمد اختر تھا، وہ 1928ء کو انبالہ (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ ساغر صدیقی کے گھر میں شدید غربت تھی جس کے وجہ سے تعلیم کا امکان نہ تھا۔ ساغر صدیقی اپنے محلے کے ایک بزرگ حبیب حسن کے ہاں جانے لگے اور ان سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ انبالہ کی غربت و تنگدستی کے زندگی سے دل برداشتہ ہو کر وہ تیرہ چودہ برس کی عمر میں امرِتسر (یہ لفظ امرَتْسَر یا امَرْتَسَر نہیں) چلے گئے، جہاں وہ لکڑی کی کنگھیاں بنانے والی ایک دکان میں ملازم ہوئے اور وہ فن بھی سیکھ لیا۔ ساغر صدیقی کی شعر گوئی کا سلسلہ اس دوران شروع ہوچکا تھا، آپ کا شروع میں قلمی نام ناصرحجازی تھا لیکن بہت جلد ہی یہ بدل کر ساغر صدیقی کرلیا۔ ساغر صدیقی اس دوران شعرگوئی کرتے تھے اور بلا تکلف اپنے اشعار دوستوں کو سنانے لگے۔ 1944ء کے لاہور کے ایک مشاعرے میں شرکت کے بعد ساغرصدیقی بام شہرت پر پہنچ گئے اور وہ امرتسر اور لاہور کو مشاعروں میں بلائے جانے لگے۔ 

ساغرصدیقی کے آواز میں سوز جگر تھا، ترنم میں روانی تھی، اس وجہ سے آپ کا کلام جاذب ہوا کرتا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد ساغرصدیقی امرتسر سے لاہور آگئے، 1952ء تک یہ چند سال کا دور ساغر کے لیے بہت سنہرا دور ثابت ہوا۔ آپ کا کلام کئی روزناموں، ادبی جریدوں اور ہفتہ وار رسالوں میں نمایاں انداز میں شائع ہوتا تھا۔ ساغر کی مقبولیت و شہرت کے مدنظر کئی فلم پروڈیوسروں نے آپ سے معقول معاوضے کے بدلے میں گیت لکھنے کی فرمائش کی۔ 1952ء کے بعد ساغر کے زندگی بری صحبت کی وجہ سے خراب ہوگئی، اور ہر قسم کے نشے کا شکار ہوگئی۔ ساغر بھنگ، شراب، افیون اور چرس استعمال کرنے لگے، تاہم اس مدہوشی کے عالم میں بھی سخن وری جاری تھی اور تقریبا اردو شاعری کے ہر صنف سخن میں شاہکار تخلیق کرتے تھے، اور مدہوشی کے دور میں بھی لوگ آپ کو مشاعروں کے لیے لے جاتے تھے۔ شاید اس عالم مدہوشی کا ایک شعر ہے: 


آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں

لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں


ـــــــــــــــــ مدہوشی کی زندگی گزارتے گزارتے 1974ء میں ساغر صدیقی فالج میں مبتلا ہوگئے، آپ کا دایاں ہاتھ ہمیشہ کے لیے بیکار ہوگیا تھا۔ منہ سے خون بھی بہنے لگا، جسم سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا تھا۔ ساغر صدیقی کا آخری وقت داتا دربار کے سامنے فٹ پاتھ پر گزرا تھا، اور 19 جولائی 1974ء کو اسی فٹ پاتھ پر صبح کو ان کی وفات ہوگئی تھی۔ آپ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

یہ بھی پڑھیں☜ محترم آغا شورش کاشمیرؔی

آپ کے مشہور تصانیف میں ” زہر آرزو“، ”غم بہار“، ”شب آگہی“، ”لوحِ جنوں“، ”سبز گنبد“، ”مقتل گل“ اور ”کلیات ساغر“ شامل ہیں۔ ساغر کی شاعری کے موضوعات میں عشق مجازی، عشق حقیقی، لگن، جدوجہد، اور آوارگی شامل ہیں۔ قارئین کے ذوق کے لیے آپ کے چند کلام منتخب کیے جاتے ہیں:۔


ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ہمیں جو یاد مدینے کا لالہ زار آیا

تصورات کی دنیا پہ اک نکھار آیا


کبھی جو گنبد خضرا کی یاد آئی ہے

بڑا سکون ملا ہے بڑا قرار آیا


یقین کر کہ محمد کے آستانے پر

جو بد نصیب گیا ہے وہ کامگار آیا


ہزار شمس و قمر راہ شوق سے گزرے

خیال‌ حسن محمدؐ جو بار بار آیا


عرب کے چاند نے صحرا بسا دئے ساغرؔ

وہ ساتھ لے کے تجلی کا اک دیار آیا 


ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا

غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا


چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلف یار

کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا


میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور

میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا


ساغرؔ وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجیے حضور

ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا


ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں


دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو

مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں


مرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں

آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں


حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغرؔ

سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں


ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں

میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں


میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے

میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں


میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو

ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں


کیسے بھر آئیں سر شام کسی کی آنکھیں

کیسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں


صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے

کب ہوا کون ہوا کس سے خفا یاد نہیں


زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں


آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں

لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حیدرعلی صدیقی

مسلم / پاکستانی / لکھاری

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی